مانسہرہ ۔ جمیعت علماء اسلام کے مرکزی رہنما مفتی کفایت اللہ کے خلاف ریاست کی جانب سے 31دسمبر 2020 کو قائم کردہ ایک اور مقدمے میں سرخروئی، یاسر ہد’ی سواتی ایڈووکیٹ آف نوکوٹ مانسہرہ کی جانب سے دائر کردہ اپیل پر انسداد دہشتگردی ایبٹ آباد کے جسٹس سجاد احمد جان نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنا دیا۔
ایف آئی آر میں درج دہشتگردی اور غداری کے دفعات غیر موثر، کیس ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مانسہرہ کو منتقل، 30 جنوری کی تاریخ مقرر، تفصیلات کے مطابق عدالت کے سامنے مفتی کفایت اللہ کے وکلاء سید امجد شاہ ایڈووکیٹ، یاسر ہد’ی سواتی ایڈووکیٹ اور دیگر نے مختلف عدالتوں کے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ ہمارے موکل نے ایسا کوئی جرم نہیں کیا جس پر یہ دفعات صادق آتے ہوں۔
اس لئے یہ مقدمہ عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں۔انہوں نے کہا کہ ٹی وی ٹاک شو کو بنیاد بنا کر مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔جس پر اینکر پرسن کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ مفتی کفایت اللہ نے ایسی کوئی بات نہیں کی جس پر دہشتگردی اور غداری کا مقدمہ بنتا ہو۔وکلاء نے کہا کہ ہم ملک کے ممتاز سیاسی راہنماؤں کے ایسے کئی ٹی وی کلپس پیش کر سکتے ہیں جنہوں نے اس سے سخت زبان استعمال کی ہے۔
لیکن ان پر دہشتگردی کا کوئی مقدمہ نہیں بنا۔انہوں نے کہا کہ یہ مقدمات اظہار رائے کی آزادی پر قدغن اور بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹی وی ٹاک شو میں جن ریٹائرڈ لوگوں کا نام لیا گیا ہے ان پر مختلف عدالتوں میں کرپشن کے الزامات کے تحت مقدمات زیر سماعت ہیں۔آئین اور قانون سے کوئی بالاتر نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے موکل پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے ممنوعہ تنظیموں کی فنڈنگ کی ہے۔جبکہ تحقیقاتی اداروں کے مطابق ان کا اپنا ذاتی گھر تک نہیں ہے۔سپیشل پراسیکیوٹر شہزاد احمد خان نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ مفتی کفایت اللہ کے ٹاک شوز سے عوام میں ریاست کے خلاف اشتعال پیدا ہوا ہے ان کی تقاریر میں قابل اعتراض مواد موجود ہے۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد جسٹس سجاد احمد جان نے فیصلہ دیا کہ درخواست دہندہ کے خلاف دہشتگردی اور غداری کے دفعات غیر موثر سمجھے جائیں اس لیے کیس ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مانسہرہ کو منتقل کر کے 30جنوری کی تاریخ مقرر کر دی گئی۔