ضلع مانسہرہ کی سیاست کا رخ بدل کر رکھ دینے والے اس مرد قلندر صاحب درویش نواب زمانہ سردار محمد یوسف کا تعلق انتہائی غریب ترین گھرانے اور پسماندہ ترین علاقہ بٹل جالگلی سے تھا۔ ٨٠ کی دہاٸی میں جب سیاست کے میدان کا رخ کیا تو مشکل ترین اور خوفناک حالات تھے ہر طرف لاٹھی گولی جیل ہتھکڑی بدمعاشی غنڈہ گردی کی سیاست کا دور دوراں تھا۔
مگر پھر حالات نے یکدم اس وقت کروٹ بدلی جب فوجی آمر جنرل ضیإ الحق نے 1987 ٕ میں غیر جماعتی بنیاد پر بلدیاتی انتخابات کا اعلان کیا اس الیکشن میں مظلوم و محکوم اور متوسط طبقے کے امیدوار سردار محمد یوسف تھے اور مدمقابل اس وقت کے طاقتور نامی گرامی جاگیردار مفتی خان مرحوم تھے یہ الیکشن سخت خوفناک حالات میں منعقد ہوا مدمقابل امیدوار کے حامیوں کی جانب سے جگہ جگہ اسلحے کی سرعام نمائش کٸ گٸ مختلف کارنرز میٹنگ پر غنڈہ گردی کرتے ہوٸے دھاوا بولا گیا لوگوں کو مارا پیٹا ڈرا دھمکایا گیا مگر تمام تر رکاوٹيں رحمت خداوندی سے عبور کرتے ہوٸے سردار محمد یوسف نے ضلعی نشست پر تاریخ ساز فتح حاصل کرتے ہوٸے وقت کے جاگیرداروں کو چاروں شانے چت کردیا۔
بس یہاں سے ایک نٸے دور کا آغاز ہوا غریب متوسط طبقے کو ایک نٸی صبح دیکھنے کو ملی ایک شعور ، ہمت ، حوصلہ ،جذبہ ملا ضلع مانسہرہ کی سیاست میں ایک نیا باب کھلا کل تک جو لوگ اپنے اوپر حکمرانی کرنے والوں کی ایک جھلک دیکھنے کو ساری عمر ترستے تھے انکی شکل صرف انتخابی پوسٹر پر دیکھتے تھے مگر اب ایسا نہیں تھا اب وقت ووٹ کی پرچی کی طاقت سے بدل چکا تھا ان کا حکمران ان کا خادم بن کر ہمہ وقت ان کے درمیان موجود رہتا تھا .
87 ٕ کے بلدیاتی انتخابات میں تاریخی فتح کے بعد سردار محمد یوسف حلقے اور عوام سے غاٸب نہیں ہوٸے بلکہ مٹی سے بنے ہوٸے کچے گھر کے دروازے اپنی غریب عوام کیلٸے کھول دیٸے ہر دکھ سکھ غم و خوشی میں یہ مرد قلندر وقت کے جاگیرداروں کے خوف بدمعاشی اور غنڈہ گردی کے بتوں کو توڑ کر پاش پاش کرکے اپنی عوام کے درمیان جا پہنچتا انکو اپنے سینے سے لگاتا انکے دکھ درد بانٹتا اور زمین پر ہی عاجزی انکساری کیساتھ ہنستے مسکراتے ہوٸے جا کر بیٹھ جاتا۔
سن 1987 ٕ کے بعد موسم نے کٸی بار انگھڑاٸی لی کبھی بہار آٸی تو کبھی خزاں صرف موسم ہی نہیں حالات بھی مسلسل بدلتے رہے گاٶں دیہاتوں کو اس مرد قلندر نے بجلی پہنچا دی تعلیم کیلٸے ہر گاٶں میں پراٸمری، مڈل ، سکینڈری، ہاٸیر سکینڈری تک اسکول قاٸم کردٸے کہیں کچی تو کہیں پکی سڑکیں بنا کر پسماندہ ترین پہاڑوں کی چوٹیوں کو بھی شہر کی مانند زندگی فراہم کرکے ترقی اور خوشحالی کی سمت گامزن کردیا.
اس دوران لوگوں کی روش بدلتی رہی ، انداز اور لب ولہجے، رسم و رواج بھی نت نٸے انداز اختیار کرتے چلے گٸے ایک نسل اس وقت جو بزرگ تھے زیر مین چلے گٸے اور دوسری نسل اس وقت جوان تھے آج بزرگ بن گٸے تیسری نسل اس وقت شیر خوار بچے تھے آج جوان ہوچکے ہیں یعنی وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ ہی بدل گیا۔
مگر نہیں بدلا تو یہ مرد قلندر ، صاحب درویش ، عجز و انکساری اور شرافت کا پیکر بڑے بڑے بدمعاشوں ، ظالموں، فرعون صفت جاگیرداروں کو تگنی کا ناچ نچانے والا سردار محمد یوسف نہیں بدلا، آج 36 سالہ مسلسل حکمرانی کرنے بعد بھی نہ پاس کوٸی شاہانہ پروٹوکول ہے نہ کبھی تاریخ میں اسکے کیلٸے ہوٹرز بجاتی گاڑیوں نے سڑکیں بند کیں، نہ کبھی اسکی آمد پر اسکے جدید اسلحہ سے لیس سر پھرے گن مینوں نے ہٹو بچوں کا شور مچایا، نہ آج دن تک اپنا ذاتی گھر ہے، نہ گاڑی ہے، نہ کوٸی بینک بیلنس ہے .
کٸی بار MPA،MNA، وزیر اعلیٰ کا مشیر، اور پاکستان کا وفاقی وزیر رہنے کے باوجود وہی لب ولہجہ ہے وہی عجز وانکساری اور شرافت ہے آج بھی غریب کے ساتھ کسی جگہ مٹی کی زمین یا پتھر پر بیٹھ کر خوشی سے مسکراتے ہیں اور آج بھی زندگی میں کبھی کبھار وہ دن بھی آجایا کرتے ہیں دوست کی جانب استعمال کیلٸے دی گٸ گاڑی میں ڈالنے کیلٸے پیٹرول کے پیسے نہیں بھی ہوتے مگر سردار ہاٶس پر چلنے والا دستر خوان پھر بھی بند نہیں ہوتا۔
جی ہاں! دستر خوان بھی وہ جس پر ملک کا وزیراعظم، صوبائی اور وفاقی وزراء بڑے بڑے سیاستدان ، بیروکریٹ بھی ان ہی برتنوں میں کھانا کھاتے ہیں اور ایک مفلوک الحال غریب مفلس ترین شخص پہاڑوں کی چوٹیوں پر بکریاں چرانے والا چراہا بھی اسی دسترخوان پر ان ہی برتنوں میں کھانا کھاتا ہے.
اس مرد مجاہد ولی کامل کے بیٹے آج بھی اپنی حق حلال محنت مزدوری کرکے عام لوگوں کی طرح اپنی زندگی کا پہیہ چلاتے ہیں سب بیٹوں میں بھی وہی اپنے عظیم والد کی طرح عاجزی، انکساری، کمال کی شرافت ، ایمانداری، دیانتداری، بے حد مہمان نوازی، اعلی اخلاق بہترین کردار اور صبر شکر پایا جاتا ہے .
مندرجہ ذیل اشعار لگتا ہے احمد فراز نے اسی عظیم ہستی کیلٸے کہے ہیں:
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے آئنہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں
بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا
سو رہروان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت
مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں
رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
اللّٰہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے ہمارے محبوب قاٸد رہبر و رہنما قاٸد حریت مرد قلندر صاحب درویش ولی کامل نواب زمانہ سردار محمد یوسف کی زندگی اور صحت میں برکت عطإ فرماٸے اور سدا اسی طرح اس ہستی کا سایہ غریبوں مظلوموں پر قاٸم داٸم رہے یہ عظیم چہرہ سدا اسی انداز میں ہنستا مسکراتا رہے۔ آمین.
کالم نگار: سردار شعیب محمد