ترنول اور بٹگرام میں گدھے کے گوشت کی دریافت اور اس کی حقیقت

74

حال ہی میں اسلام آباد کے علاقے ترنول اور خیبرپختونخوا کے ضلع بٹگرام میں گدھے کے گوشت کی بڑی مقدار دریافت نے عوام میں شدید تشویش اور افواہوں کو جنم دیا ہے۔ یہ واقعات نہ صرف خوراک کی حفاظت اور عوامی صحت کے حوالے سے سوالات اٹھاتے ہیں بلکہ اس بات کی بھی تحقیقات کی ضرورت ہے کہ آیا یہ گوشت مقامی ہوٹلوں اور ریستورانوں کے لیے تھا یا اس کا ہدف پاکستان میں مقیم چینی شہری تھے۔ اس رپورٹ میں ہم اس غیر قانونی کاروبار کی تفصیلات، اس کے ممکنہ مقاصد، اور حکام کے اقدامات کا جائزہ لیں گے۔

27 جولائی 2025 کو اسلام آباد فوڈ اتھارٹی (IFA) نے ترنول کے ایک فارم ہاؤس پر چھاپہ مارا، جہاں سے تقریباً ایک ہزار کلوگرام گدھے کا گوشت اور 50 سے زائد زندہ گدھے برآمد کیے گئے۔ اس چھاپے میں ایک غیر ملکی شہری، جو ذرائع کے مطابق ایک چینی شہری تھا، کو گرفتار کیا گیا۔ ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا کہ یہ گوشت نہ صرف مقامی مارکیٹوں بلکہ ممکنہ طور پر غیر ملکی منڈیوں، خاص طور پر چین، کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔
IFA کی ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر طاہرہ صدیقی نے بتایا کہ گوشت کو جدید پیکیجنگ میں بند کیا گیا تھا، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ اعلیٰ درجے کے خریداروں یا برآمد کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ فارم ہاؤس غیر رجسٹرڈ تھا اور اسے غیر قانونی طور پر ذبح خانے کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ گرفتار چینی شہری کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ طویل عرصے سے ترنول میں سرگرم تھا اور اس نے مقامی افراد کے تعاون سے یہ کاروبار چلایا۔

IFA کے ڈائریکٹر عرفان نواز میمن نے ایک بیان میں واضح کیا کہ ابھی تک یہ ثابت نہیں ہوا کہ یہ گوشت مقامی ہوٹلوں یا ریستورانوں کو سپلائی کیا جا رہا تھا۔ تاہم، سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک فہرست، جس میں اسلام آباد کے کچھ ریستورانوں پر گدھے کا گوشت پیش کرنے کا الزام لگایا گیا تھا، کو جعلی قرار دیا گیا۔ اس کے باوجود، عوام میں یہ افواہ پھیل گئی کہ یہ گوشت مقامی مارکیٹوں میں فروخت ہو رہا تھا، جس نے شدید غم و غصے اور مذاق کا باعث بنا۔

29 جولائی 2025 کو، ترنول کے واقعے کے چند روز بعد، خیبرپختونخوا کے ضلع بٹگرام کے علاقے کوزابندہ میں ایک اور چھاپے کے دوران ایک تازہ ذبح شدہ گدھا برآمد کیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر بٹگرام کے فیس بک پیج کے مطابق، ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر اختر رسول نے مقامی اطلاع پر یہ کارروائی کی۔ اس چھاپے میں دو افراد کو گرفتار کیا گیا، جو ہنزہ اور مانسہرہ سے تعلق رکھتے تھے۔ گرفتار شدگان نے دعویٰ کیا کہ وہ یہ گوشت چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) پر کام کرنے والے چینی حکام کو سپلائی کر رہے تھے۔

تاہم، ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر شاد محمد نے زور دیا کہ گوشت کے اصل مقصد کا تعین کرنے کے لیے مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ گرفتار افراد نہ تو قصاب برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی دکان ہے، جو اس کاروبار کی غیر قانونی نوعیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

ترنول اور بٹگرام کے واقعات نے اس شبہ کو جنم دیا کہ گدھے کا گوشت پاکستان میں مقیم چینی شہریوں کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔ اس کی چند وجوہات ہیں:

چین میں گدھے کے گوشت اور کھال کی مانگ: چین میں گدھے کی کھال سے بننے والی جیلٹن، جسے “ایجیاؤ” کہا جاتا ہے، روایتی ادویات میں استعمال ہوتی ہے۔ پاکستان، جو دنیا میں گدھوں کی سب سے بڑی تعداد رکھنے والے ممالک میں سے ایک ہے، اس مانگ کو پورا کرنے کے لیے ایک اہم سپلائر بن چکا ہے۔ مئی 2025 میں، کراچی کسٹمز نے 80 ملین روپے مالیت کی گدھوں کی کھالیں چین سمگل کرنے کی کوشش ناکام بنائی تھی۔

چینی شہریوں کی موجودگی: ترنول میں گرفتار غیر ملکی شہری کے چینی ہونے کی اطلاعات نے اس نظریے کو تقویت دی کہ یہ گوشت خاص طور پر چینی شہریوں یا برآمد کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔ بٹگرام میں گرفتار افراد کے دعوے کہ وہ CPEC پر کام کرنے والے چینی حکام کو گوشت سپلائی کر رہے تھے، نے بھی اس شبہ کو بڑھاوا دیا۔

پیکیجنگ کی نوعیت: ترنول میں برآمد شدہ گوشت کی جدید پیکیجنگ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ گوشت اعلیٰ درجے کے خریداروں یا برآمد کے لیے تیار کیا گیا تھا، جو مقامی مارکیٹوں کے بجائے غیر ملکی صارفین کے لیے زیادہ ممکنہ لگتا ہے۔

تاہم، حکام نے ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ یہ گوشت خاص طور پر چینی شہریوں کے لیے تھا۔ IFA کے ڈائریکٹر عرفان نواز میمن نے کہا کہ گوشت کی سپلائی کے بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ گوشت دوسرے شہروں یا ممالک کو بھیجا جا رہا ہو۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی افواہوں اور جعلی فہرستوں نے عوام میں یہ خوف پھیلایا کہ گدھے کا گوشت اسلام آباد کے ہوٹلوں اور ریستورانوں کو سپلائی کیا جا رہا تھا۔ تاہم، IFA نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ ایسی کوئی فہرست درست نہیں ہے۔

ایک ویٹرنری ماہر نے مقامی نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ گدھے کا گوشت عام طور پر گہرا سرخ یا نیلا رنگ رکھتا ہے، جو حلال ذبح شدہ گوشت سے مختلف ہوتا ہے۔ انہوں نے صارفین کو مشورہ دیا کہ وہ مشکوک گوشت کی جانچ کے لیے ELISA یا PCR ٹیسٹ کروائیں۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اگر گدھے کا گوشت ریستورانوں کو سپلائی بھی کیا جا رہا تھا تو اس کی شناخت ممکن ہے، لیکن ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت اس بات کی حمایت نہیں کرتا کہ یہ گوشت مقامی ہوٹلوں میں استعمال ہو رہا تھا۔

IFA اور مقامی پولیس نے دونوں واقعات میں فوری کارروائی کی۔ ترنول میں گرفتار چینی شہری کے خلاف اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری فوڈ سیفٹی ایکٹ 2021 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، جبکہ بٹگرام میں گرفتار افراد کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 272 اور 273 کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔

عوامی ردعمل میں غم و غصے کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح بھی دیکھنے کو ملا۔ سوشل میڈیا پر میمز کی بھرمار ہو گئی، جن میں لاہور اور کراچی کے باشندوں نے اسلام آباد کے باشندوں پر طنز کیے۔

ترنول اور بٹگرام میں گدھے کے گوشت کی دریافت نے پاکستان میں خوراک کی حفاظت اور غیر قانونی تجارت کے حوالے سے سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔ اگرچہ شواہد اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ گوشت ممکنہ طور پر چین برآمد کرنے یا پاکستان میں مقیم چینی شہریوں کے لیے تیار کیا جا رہا تھا، لیکن مقامی ہوٹلوں اور ریستورانوں کو سپلائی کے الزامات کی ابھی تک تصدیق نہیں ہوئی۔ حکام کی جانب سے جاری تحقیقات سے امید ہے کہ اس غیر قانونی کاروبار کے اصل مقاصد اور نیٹ ورک کا پتہ چل سکے گا۔

اس واقعے نے نہ صرف عوامی صحت کے تحفظ کی اہمیت کو اجاگر کیا بلکہ سخت نگرانی اور قانون نافذ کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ عوام کو چوکنا رہنے اور مشکوک گوشت کی اطلاع دینے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات سے بچا جا سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں