مانسہرہ، تناول سے تعلق رکھنے والے ممتاز سیاسی رہنما، سابق صوبائی وزیر، ماہر قانون اور جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سینئر رکن حاجی حبیب الرحمٰن تنولی ایڈووکیٹ 25 جولائی 2025 کو مختصر علالت کے بعد اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی وفات نہ صرف تناول بلکہ پورے ہزارہ ڈویژن کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ وہ ایک بااصول، دیانتدار اور عوام دوست سیاستدان کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔
حاجی حبیب الرحمٰن تنولی کا تعلق تنولی قبیلے سے تھا، جو ریاست امب کے باسیوں میں سے ہے اور تاریخی و قبائلی اعتبار سے ہزارہ میں ایک بااثر شناخت رکھتا ہے۔ ان کا سیاسی سفر 1980ء کی دہائی میں ضلعی کونسل مانسہرہ کے رکن کی حیثیت سے شروع ہوا۔ وہ جلد ہی اپنے حلقے میں ایک فعال، متحرک اور مسئلہ فہم عوامی نمائندے کے طور پر ابھرے۔
ضلعی سطح پر خدمات انجام دینے کے بعد، انہوں نے سیاست میں بھرپور قدم رکھا اور 1988 میں پہلی بار خیبر پختونخوا اسمبلی (اس وقت NWFP) کے رکن منتخب ہوئے، جہاں انہیں صوبائی وزیر برائے مذہبی امور، اوقاف و زکوٰۃ مقرر کیا گیا۔
1993 کے عام انتخابات میں ایک بار پھر کامیاب ہو کر وہ صوبائی وزیر برائے بلدیات و دیہی ترقی بنے۔ اس دور میں انہوں نے دیہی علاقوں میں بنیادی سہولیات، مقامی حکومتوں کے استحکام اور انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے اہم کردار ادا کیا۔
2002 میں جب پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا، اس وقت حاجی حبیب الرحمٰن تنولی ایک جھوٹے اور سیاسی نوعیت کے مقدمے میں جیل میں قید تھے۔ ایسے نازک وقت میں بھی انہوں نے ہمت نہ ہاری بلکہ اپنی سیاسی جدوجہد کو جاری رکھا۔ اسی دوران ان کی بیٹی غزالہ حبیب نے ان کے مشورے اور رہنمائی میں انتخابی میدان میں قدم رکھا اور صوبائی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔
یہ کامیابی نہ صرف ایک سیاسی وراثت کا تسلسل تھی بلکہ اس بات کا ثبوت بھی کہ حاجی حبیب الرحمٰن تنولی کا سیاسی اثر و رسوخ اور عوامی اعتماد ان کی غیر موجودگی میں بھی باقی رہا۔ اس واقعے کو ہزارہ کی سیاست میں ایک علامتی اور جذباتی موڑ کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔
2008 کے انتخابات میں انہوں نے آزاد حیثیت سے کامیابی حاصل کی اور بعد ازاں پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی۔ اس بار انہیں صوبائی وزیر برائے لینڈ ریونیو و اسٹیٹ افیئرز مقرر کیا گیا۔ ان کی وزارت کے دوران زمینوں کے ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن، ریونیو عدالتوں کی کارکردگی اور عوامی شکایات کے ازالے پر خصوصی توجہ دی گئی۔
انہوں نے اپنے طویل سیاسی کیریئر میں مختلف سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے خدمات انجام دیں۔ ابتدا میں آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیا، پھر مسلم لیگ (ن) کا حصہ بنے اور بعد ازاں 2019 کے بعد جمیعت علمائے اسلام (ف) میں شامل ہو گئے، جہاں وہ وفات تک پارٹی کے سینئر رہنما رہے۔ ان کا ہر سیاسی فیصلہ عوامی فلاح، نظریاتی ہم آہنگی اور اصولوں پر مبنی ہوتا تھا۔
2024 کے عام انتخابات میں انہوں نے سابق صوبائی وزیر ابرار حسین تنولی کے ساتھ ایک سیاسی مفاہمت کی۔ اس کے تحت ان کے صاحبزادے فہد حبیب ایڈووکیٹ نے PK-35 سے جے یو آئی (ف) کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیا، جب کہ ابرار حسین تنولی PK-36 سے امیدوار بنے۔ یہ اتحاد تنولی خاندان کے اندرونی اختلافات کے خاتمے کی جانب ایک عملی قدم تھا، جسے سیاسی حلقوں میں مثبت انداز میں سراہا گیا۔
ایک ماہر قانون دان کی حیثیت سے حاجی صاحب نے عوامی مسائل، انسانی حقوق اور جائیداد کے تنازعات میں مؤثر قانونی معاونت فراہم کی۔ ان کی وکالت اور سیاسی قیادت میں ایک غیر معمولی توازن موجود تھا۔
ان کی زندگی سادگی، دیانت اور عوامی رابطے کا عملی نمونہ تھی۔ تناول اور گردونواح کے علاقوں میں اسکولوں، سڑکوں، پینے کے پانی اور صحت کے منصوبوں میں ان کی ذاتی دلچسپی اور خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔
25 جولائی 2025 کو ان کے انتقال کی خبر ہزارہ میں غم و اندوہ کی لہر بن کر پھیلی۔ 26 جولائی کو ان کی نمازِ جنازہ ٹھاکر میرا گراؤنڈ، پڑھنہ (تناول) میں ادا کی گئی، جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ انہیں ان کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
حاجی حبیب الرحمٰن تنولی ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت تھے جنہوں نے سیاست، قانون، قبائلی معاملات اور عوامی خدمت کے ہر میدان میں اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا۔ ان کی وفات ہزارہ خصوصاً تناول کی سیاست کے ایک عہد کے خاتمے کی علامت ہے۔
> اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔