مانسہرہ کی میونسپل لائبریری: ایک تاریخی گردوارہ کی تبدیل شدہ داستان

69

خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ میں کشمیر روڈ پر واقع میونسپل لائبریری ایک ایسی عمارت ہے جو نہ صرف علم و ادب کا مرکز ہے بلکہ اس کی دیواروں میں برصغیر کی تقسیم کی تلخ یادیں اور سکھ مذہب کی تاریخی میراث بھی چھپی ہوئی ہے۔ یہ عمارت اصل میں ایک گردوارہ تھی، جو 1937 میں سکھ برادری کے لیے تعمیر کی گئی تھی، مگر تقسیم ہند کے بعد اسے مختلف سرکاری محکموں کے استعمال میں لایا گیا اور اب یہ ایک عوامی لائبریری کے طور پر کام کر رہی ہے۔ اس رپورٹ میں ہم اس عمارت کی تاریخ، فن تعمیر اور موجودہ حیثیت پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔
یہ عمارت، جسے اصل میں “گردوارہ سری گرو سنگھ سبھا” کے نام سے جانا جاتا تھا، 1936 میں سردار گوپال سنگھ سیٹھی کی جانب سے تعمیر کی گئی تھی۔ بنیاد کا پتھر 5 ستمبر 1937 کو رکھا گیا تھا، جو برطانوی راج کے دور کی ایک اہم مذہبی عمارت تھی۔ اس وقت مانسہرہ میں سکھ برادری کی ایک قابل ذکر آبادی موجود تھی، اور یہ گردوارہ ان کی عبادت اور سماجی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ گرو گرنتھ صاحب یہاں رکھا جاتا تھا، اور سکھ عقائد کے مطابق عبادت کی جاتی تھی۔
1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد، جب سکھ اور ہندو برادریاں بڑی تعداد میں ہندوستان ہجرت کر گئیں، تو یہ عمارت خالی ہو گئی۔ اس کے بعد، یہ مختلف سرکاری محکموں کے استعمال میں آئی۔ ابتدائی طور پر اسے محکمہ تعلیم، محکمہ خوراک اور پولیس کے offices کے طور پر استعمال کیا گیا۔ 1976 سے یہ پولیس اسٹیشن کے طور پر کام کرنے لگی، جو ایک عرصے تک جاری رہی۔ اس دوران، عمارت کی دیکھ بھال تو ہوتی رہی مگر اس کی اصل مذہبی حیثیت ختم ہو گئی۔
1999 میں، صوبائی حکومت نے اسے لائبریری میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اس کی تاریخی اہمیت کو محفوظ رکھا جا سکے اور عوام کو فائدہ پہنچے۔ مرمت اور تزئین و آرائش کے بعد، اگست 2000 میں یہ عوامی لائبریری کے طور پر کھولی گئی۔ اس تبدیلی کی وجہ سے عمارت کی حفاظت ہوئی، ورنہ یہ شاید تباہ ہو جاتی۔ آج یہ “مانسہرہ میونسپل لائبریری” کے نام سے جانی جاتی ہے اور علم کے متلاشیوں کے لیے ایک پناہ گاہ ہے۔
یہ تین منزلہ عمارت سکھ فن تعمیر کا ایک شاندار نمونہ ہے، جو 63 فٹ لمبی اور 32 فٹ چوڑی ہے۔ یہ ٹھوس اینٹوں سے بنی ہے اور اس کی شکل مستطیل ہے۔ مرکزی دروازے پر انگریزی، اردو اور گرموکھی رسم الخط میں “گردوارہ سری گرو سنگھ سبھا” کندہ ہے۔ عمارت کی بیرونی دیواروں پر چار خانڈا (سکھ مذہب کا نشان، جو تین ہتھیاروں اور ایک دائرے پر مشتمل ہے) موجود ہیں۔ اندرونی حصے میں سفید سنگ مرمر کی راہداری، پھولوں کی ڈیزائن والی ستون، اور دیواروں پر سکھ روایتی کہانیوں کی مصوریاں (فریسکوز) ہیں جو اب بھی برقرار ہیں۔ چھت پر پھولوں کے نقش و نگار اور فرش پر سیاہ و سفید ٹائلیں اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتی ہیں۔ دوسری اور تیسری منزل پر اضافی ہال اور صحن ہیں، جہاں اب لائبریری کی کتابیں اور اخبارات رکھے جاتے ہیں۔ مشرقی جانب ایک قدیم مندر بھی ہے، جو اب خستہ حال ہے۔
یہ فن تعمیر نہ صرف تاریخی ہے بلکہ یہ برصغیر میں سکھ ثقافت کی عکاسی کرتا ہے۔ لائبریری کے طور پر استعمال ہونے کی وجہ سے یہ اچھی حالت میں ہے، اور یہاں آنے والے زائرین اس کی خوبصورتی کی تعریف کرتے ہیں۔
آج یہ لائبریری روزانہ صبح 8 بجے سے دوپہر 1 بجے تک اور شام 3 بجے سے 8 بجے تک کھلی رہتی ہے (جمعہ کو بند)۔ یہاں تقریباً 10,000 کتابیں دستیاب ہیں، جن میں اسلام، معاشیات، سیاست، ادب اور تاریخ جیسے موضوعات شامل ہیں۔ روزانہ 14 اردو اور انگریزی اخبارات آتے ہیں، جو تیسری منزل پر محفوظ کیے جاتے ہیں۔ ممبرشپ مفت ہے، اور روزانہ 50 سے 60 لوگ، بشمول طلبہ اور بزرگ، یہاں آتے ہیں۔ لائبریری کشمیر مارکیٹ کے درمیان واقع ہے، جو شہر کی ہلچل سے دور ایک پرسکون جگہ فراہم کرتی ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ لائبریری نہ صرف پڑھنے کی جگہ ہے بلکہ یہاں کی تاریخی فضا لوگوں کو ماضی کی یاد دلاتی ہے۔ ایک مقامی طالب علم نے بتایا، “یہاں آ کر ایسا لگتا ہے جیسے تاریخ کی کتابوں میں گھوم رہے ہوں۔”
2021 میں، ایواکیوی ٹرسٹ پراپرٹی بورڈ (ETPB) نے اس عمارت کو دوبارہ گردوارہ کے طور پر بحال کرنے کا اعلان کیا تھا، تاکہ مقامی سکھ برادری کو عبادت کی جگہ مل سکے۔ اس منصوبے کے تحت لائبریری کو کسی دوسری جگہ منتقل کیا جانا تھا، اور گرو گرنتھ صاحب کو دوبارہ یہاں نصب کیا جانا تھا۔ تاہم، 2025 تک اس پر کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوئی، اور عمارت اب بھی لائبریری کے طور پر کام کر رہی ہے۔ مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انتظامی مسائل کی وجہ سے تاخیر ہوئی ہے، مگر بحالی کا منصوبہ اب بھی زیر غور ہے جو مذہبی سیاحت کو فروغ دے سکتا ہے۔
یہ عمارت تقسیم کی یادگار ہے جو مذہبی ہم آہنگی اور تاریخی تحفظ کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔ اگر بحال ہوئی تو یہ نہ صرف سکھ برادری بلکہ تمام پاکستانیوں کے لیے فخر کا باعث بن سکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں