مانسہرہ کی وادی میں بکھری ہوئی تہذیبوں کی کہانی

0

مانسہرہ کی وادی میں بکھری تہذیبوں کی کہانی

خیبرپختونخوا کے شمال مشرقی حصے میں واقع ضلع مانسہرہ نہ صرف اپنی قدرتی خوبصورتی کے لیے مشہور ہے، بلکہ یہ علاقہ دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کا گہوارہ بھی رہا ہے۔ یہاں موجود گندھارا تہذیب، اشوک اعظم کے کتبے، بدھ مت کے آثار، ہندو دھرم کے مقدس مقامات، اسلامی حکومتوں کے آثار، مغلوں، سکھوں اور انگریزوں کی حکمرانی کی نشانیاں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ مانسہرہ تاریخ کی مختلف تہذیبوں اور ادوار کا ایک جیتا جاگتا میوزیم ہے۔

قدیم تاریخ اور گندھارا تہذیب (500 قبل مسیح – 500 عیسوی)

مانسہرہ کا شمار گندھارا تہذیب کے اہم مراکز میں ہوتا ہے۔ یہ تہذیب بدھ مت کے فلسفے، فنِ تعمیر، مجسمہ سازی اور تعلیم کے اعتبار سے دنیا بھر میں معروف ہے۔

اشوک اعظم (273–232 ق م) کا دور اس خطے کی اہمیت کو بڑھاتا ہے۔ اشوک نے بدھ مت قبول کرنے کے بعد اپنے سلطنت میں “دھرم” کے پیغامات پتھروں پر کندہ کروائے۔

مانسہرہ کتبہ (Mansehra Rock Edicts) جو کہ موجودہ شہر مانسہرہ میں واقع ہے، اشوک کے جاری کردہ چودہ قوانین پر مشتمل ہے، جو پالی زبان میں کندہ ہیں۔ یہ دنیا بھر میں اشوکا کے اہم کتبوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

> حوالہ: Sir Alexander Cunningham, Archaeological Survey of India Reports۔

ہندو شائی اور ہندو دور (500–1000 عیسوی)

گندھارا تہذیب کے زوال کے بعد یہاں ہندو شاہی حکومت قائم ہوئی جن کا دارالحکومت اودیانہ (موجودہ سوات) کے قریب تھا، لیکن ان کا اثر مانسہرہ اور اس کے گردونواح پر بھی تھا۔

برریڑی (بریڑی) جیسے مقامات ہندوؤں کے لیے مذہبی اہمیت رکھتے تھے۔

ہندو شائی راجاؤں نے یہاں مندروں کی تعمیر کی جن کے آثار اب بھی کہیں کہیں دکھائی دیتے ہیں۔

> حوالہ: Dr. Ahmad Hasan Dani, “History of Northern Areas of Pakistan”

غزنوی، غوری اور مغل دور (1000–1700 عیسوی)

سلطان محمود غزنوی نے 1001 عیسوی میں ہندوستان پر حملہ کیا، جس کے بعد اس علاقے میں اسلام کی آمد ہوئی۔

بعد ازاں غوری حکمرانوں نے بھی یہاں قبضہ برقرار رکھا۔

مغل دور میں مانسہرہ کشمیر کے گورنر کے زیرانتظام تھا۔ اکبر اعظم کے دور میں اس علاقے کی مردم شماری اور زراعتی نظام کو باقاعدہ ریکارڈ کیا گیا۔

> حوالہ: Ain-i-Akbari by Abu’l-Fazl ibn Mubarak

سکھ دور (1818–1849)

مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ہزارہ پر قبضہ کیا اور یہاں کے قبائل کی آزادی محدود کر دی۔

سکھ کمانڈر دیوان بھوپ سنگھ اور بعد ازاں جنرل ہری سنگھ نلوہ نے مانسہرہ پر سخت حکمرانی کی۔

مقامی لوگوں میں بغاوتوں کا آغاز ہوا جنہیں سکھوں نے بے دردی سے کچلا۔

> حوالہ: “The Punjab Chiefs” by Sir Lepel Griffin

برطانوی راج (1849–1947)

1849 میں انگریزوں نے پنجاب اور ہزارہ پر قبضہ کیا۔

مانسہرہ ہزارہ ڈویژن کا حصہ بنایا گیا، اور یہاں جدید تعلیم، تحصیل و ضلع بندی، پولیس نظام اور سڑکوں کا جال بچھایا گیا۔

1916 میں مانسہرہ شہر کو ایک میونسپلٹی کا درجہ ملا۔

انگریزوں نے مقامی سرداروں کو جاگیریں دیں تاکہ وہ انگریز راج کے وفادار رہیں۔

> حوالہ: District Gazetteer of Hazara (1883-84), Punjab Government

آزادی کے بعد کا مانسہرہ (1947 – تا حال)

قیام پاکستان کے بعد مانسہرہ کو پہلے ایبٹ آباد ضلع کا حصہ رکھا گیا، تاہم 1976 میں یہ الگ ضلع قرار پایا۔

مانسہرہ میں اب تعلیم، سیاحت، زراعت، اور تعمیرات کے شعبے تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔

تاریخی و سیاحتی مقامات

1. اشوک کتبہ (Mansehra Edicts) – عالمی ورثہ کی فہرست میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

2. بالاکوٹ – دریائے کنہار کے کنارے واقع، زلزلے کے بعد جدید طرز پر دوبارہ آباد کیا گیا۔

3. شاہراہِ قراقرم (Karakoram Highway) – چین تک جانے والی تاریخی تجارتی راہ۔

4. کاغان و ناران وادی – پاکستان کی مشہور ترین سیاحتی مقامات میں شامل۔

5. بریڑی – ہندو مت کی مقدس زیارت گاہ۔

6. ہزارہ فیزنٹری ڈھوڈیال – حیاتیاتی تنوع کا مرکز۔

آبادی و قبائل

مانسہرہ کی آبادی تقریباً 1.6 ملین (2023 مردم شماری کے مطابق) ہے۔
اہم قبائل:

گوجر,تنولی، سواتی، اعوان, سید, یوسفزئی، مشوانی، و راجپوت، مغل، قریشی، عباسی

> حوالہ: Pakistan Bureau of Statistics 2023

مانسہرہ ایک ایسا علاقہ ہے جو صدیوں سے مختلف تہذیبوں، ثقافتوں، اور حکومتوں کا مرکز رہا ہے۔ آج کا مانسہرہ نہ صرف ایک سیاسی، سیاحتی اور تعلیمی مرکز ہے، بلکہ یہ اپنی تاریخ کو محفوظ رکھنے اور نئی نسلوں تک پہنچانے میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ایک مؤرخ کی نظر سے دیکھا جائے تو مانسہرہ صرف ایک ضلع نہیں بلکہ تاریخ کی سانس لیتا ہوا ایک زندہ ورثہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں