پی ٹی آئی یا پی ایم ایل این: مانسہرہ گریوٹی فلو واٹر اسکیم کا اصل کریڈٹ کس کا؟

45

ایک تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے، میں نے مانسہرہ گریویٹی فلو واٹر سپلائی اسکیم کے بارے میں تفصیلات جمع کی ہیں، جو 18.583 بلین روپے (تقریباً 85.25 ملین امریکی ڈالر) کا منصوبہ ہے۔ یہ منصوبہ مانسہرہ شہر اور اس کے مضافات میں 200,000 سے زائد افراد کو کاغان ویلی کے ذرائع سے گریویٹی کی مدد سے صاف پانی فراہم کرے گا۔ اس کی فنڈنگ کا ایک حصہ سعودی فنڈ فار ڈیولپمنٹ (ایس ایف ڈی) سے 41 ملین ڈالر کا رعایتی قرضہ ہے، جبکہ باقی رقم خیبرپختونخوا حکومت نے فراہم کی ہے۔ اس منصوبے کے سیاسی کریڈٹ پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کے مابین تنازعہ ہے۔ ذیل میں منصوبے کی ٹائم لائن، اہم پیش رفت، اور دونوں جماعتوں کے دعوؤں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

یہ منصوبہ مانسہرہ میں پانی کی دیرینہ قلت کے مسئلے سے جڑا ہے، جس کا ذکر 2018 میں مقامی احتجاج میں بھی سامنے آیا تھا۔ یہ منصوبہ میونسپل کارپوریشن مانسہرہ کے 3,059 ایکڑ رقبے پر محیط ہے، جس کی تکمیل تین سال میں ہوگی، اور قرض کی ادائیگی 25 سال میں ہوگی، جس میں 5 سال کا رعایتی عرصہ اور 2 فیصد سالانہ سروس چارجز شامل ہیں۔
2018: سعودی فنڈنگ کا ابتدائی معاہدہ منصوبے کی ابتدا فروری 2018 میں ہوئی، جب سعودی عرب نے مانسہرہ کے گریویٹی فلو واٹر اسکیم کی مالی اعانت پر اتفاق کیا۔ یہ معاہدہ پی ایم ایل این کی وفاقی حکومت (وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، نواز شریف کے بعد) کے دور میں طے پایا۔ اس وقت پی ٹی آئی نے جولائی 2018 کے انتخابات کے بعد خیبرپختونخوا میں حکومت بنائی تھی، جس میں پرویز خٹک سے محمود خان تک اقتدار منتقل ہوا۔ اس مرحلے پر پی ٹی آئی کا براہ راست کردار واضح نہیں، لیکن وفاقی منظوری بین الاقوامی فنڈنگ کے لئے ضروری تھی۔
2018–2022: پی ٹی آئی کے دور میں پیش رفت عمران خان کے وفاقی وزیراعظم (2018–2022) اور پی ٹی آئی کی خیبرپختونخوا حکومت (سی ایم محمود خان) کے دور میں منصوبے نے رفتار پکڑی۔ مارچ 2020 میں، ایس ایف ڈی نے 2.5 بلین روپے مختص کیے، اور سی ایم محمود خان نے منصوبے کی منظوری دی۔ مئی 2022 تک، خیبرپختونخوا حکومت نے اعلان کیا کہ ایس ایف ڈی کی امداد سے کام شروع ہونے کو تیار ہے۔ اکتوبر 2022 میں، سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) نے اسے منظور کیا۔ جنوری 2023 میں، ایگزیکٹو کمیٹی آف نیشنل ایکنامک کونسل (ای سی این ای سی) نے 18.5 بلین روپے کے منصوبے کی منظوری دی، جسے سی ایم محمود خان نے صاف پانی کی فراہمی کے لئے ایک سنگ میل قرار دیا۔ ان منظوریوں میں وفاقی ایکنامک افیئرز ڈویژن (ای اے ڈی) اور خیبرپختونخوا کے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ (پی ایچ ای ڈی) کے درمیان تعاون شامل تھا۔
2022–2024: تاخیر اور منسوخی کے الزامات اپریل 2022 میں عمران خان کی برطرفی اور شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد، منصوبے میں مبینہ طور پر تاخیر ہوئی۔ 2023 تک کام شروع نہیں ہوا تھا۔ پی ایم ایل این رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی نے منصوبہ “منسوخ” کر دیا تھا، لیکن اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا—یہ وفاقی سطح پر تاخیر یا بیوروکریٹک مسائل کا حوالہ ہو سکتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں، پی ٹی آئی نے جنوری 2023 میں اسمبلی تحلیل کی، جس کے بعد نگراں سیٹ اپ آیا، اور 2024 میں پی ٹی آئی نے سی ایم علی امین گنڈاپور کے تحت دوبارہ اقتدار سنبھالا۔ 2024 تک پانی کی قلت برقرار رہی، جو خشک سالی سے مزید بڑھ گئی۔
2024–2025: بحالی اور معاہدہ نومبر 2024 میں، پی ایم ایل این کے رکن قومی اسمبلی سردار یوسف نے اعلان کیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سعودی فنڈنگ سے متعلقہ رسمیات مکمل کر لی ہیں۔ فروری 2025 میں، وزیراعظم شہباز شریف نے اسلام آباد میں ای اے ڈی کے ڈاکٹر اجلال خٹک اور پی ایچ ای ڈی کے داؤد خان کے درمیان معاہدے پر دستخط کی تقریب دیکھی، جس میں صوبائی وزیر پختون یار خان بھی موجود تھے۔ یہ معاہدہ 1.2 بلین ڈالر کے سعودی تیل ڈیفرل ڈیل کا حصہ تھا۔ اس کے بعد جلد کام شروع ہونے کی توقع تھی، اور پی ایم ایل این رہنماؤں نے بحالی کی کوششوں کو اجاگر کیا۔
کریڈٹ کے دعوے: پی ٹی آئی بمقابلہ پی ایم ایل این
دونوں جماعتیں منصوبے کا کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہی ہیں، اسے اپنے رہنماؤں کے “عوام دوست وژن” سے منسوب کرتی ہیں۔
پی ٹی آئی کے دعوے پی ٹی آئی عمران خان کی قیادت اور صوبائی سطح کی کوششوں کو اجاگر کرتی ہے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کے اسپیکر بابر سلیم سواتی (پی ٹی آئی) نے 2025 کے معاہدے کو “تاریخی سنگ میل” قرار دیا، جو عمران خان کے “عوام دوست وژن” سے ہم آہنگ ہے، اور پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت، وزیر پختون یار خان، اور پی ایچ ای ڈی حکام کی کوششوں کو سراہا۔ اس سے قبل، سی ایم محمود خان نے 2023 کی ای سی این ای سی منظوری کو پی ٹی آئی کی کامیابی قرار دیا۔ پی ٹی آئی رہنما کمال سواتی نے 2024 میں منصوبے کے فوائد اجاگر کیے۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی حامی سعودی تعلقات کو عمران کی خارجہ پالیسی سے جوڑتے ہیں۔
پی ایم ایل این کے دعوے پی ایم ایل این منصوبے کی ابتدا نواز شریف کے دور (2018 سے قبل) اور بحالی کو شہباز شریف سے منسوب کرتی ہے۔ رہنما کیپٹن (ریٹائرڈ) محمد صفدر نے 2023 میں اعلان کیا کہ 19 بلین روپے کا منصوبہ جلد شروع ہوگا، جو وفاقی دباؤ کی طرف اشارہ ہے۔ 2024–2025 میں، پی ایم ایل این نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی نے منصوبہ منسوخ کیا تھا، اور شہباز کی سفارت کاری نے ایس ایف ڈی قرض بحال کیا۔ وفاقی حکومت نے فروری 2025 میں شہباز کی موجودگی میں معاہدے کو پی ایم ایل این کی کامیابی قرار دیا۔
سوشل میڈیا سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں جماعتوں کے حامی اپنے اپنے دعووں کو فروغ دیتے ہیں، لیکن غیر جانبدار اتفاق رائے نہیں ہے۔ دونوں فریقین اکثر دو طرفہ ٹائم لائن کو نظر انداز کرتے ہیں۔
تجزیہ: کریڈٹ کا مستحق کون ہے—پی ٹی آئی یا پی ایم ایل این؟
منصوبہ کئی انتظامیہ کے ادوار پر محیط ہے، جس میں وفاقی سفارت کاری (ایس ایف ڈی فنڈنگ) اور صوبائی عمل درآمد (پی ایچ ای ڈی) شامل ہیں۔ پی ایم ایل این 2018 کے سعودی معاہدے اور 2025 کی بحالی/دستخط کے لئے کریڈٹ لے سکتی ہے۔ پی ٹی آئی نے 2020–2023 میں منظوریوں (ای سی این ای سی، سی ڈی ڈبلیو پی) اور فنڈز کی ابتدائی تخصیص کو آگے بڑھایا۔
حقیقت میں، یہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تسلسل پر مبنی ایک مشترکہ کوشش ہے۔ سیاسی تنازعات عوام کی فلاح کے اصل مقصد کو پس پشت ڈال سکتے ہیں۔
نتیجہ
پی ٹی آئی اور پی ایم ایل این دونوں منصوبے کی ابتدا، پیش رفت، اور تکمیل میں اپنے کردار کے لئے کریڈٹ کی مستحق ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں