کوہستان میگا کرپشن سکینڈل ۔ پیشرفت

49

جولائی 2025 کے وسط میں، خیبرپختونخوا کے کوہستان سے ایک ایسی کہانی سامنے آئی جو صوبے کی تاریخ کے سب سے بڑے مالیاتی اسکینڈلز میں سے ایک بن گئی ہے۔ یہ کوہستان میگا کرپشن اسکینڈل ہے، جہاں صوبائی خزانے سے تقریباً 40 ارب روپے کی خرد برد کا انکشاف ہوا۔ اپریل 2025 میں یہ دھماکہ خیز خبر اس وقت منظر عام پر آئی جب پتہ چلا کہ جعلی چیکوں، جھوٹے ریکارڈز، اور غیر مجاز ادائیگیوں کے ذریعے ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز کو منظم انداز میں ہڑپ کیا گیا۔ اس کرپشن کا مرکز مواصلات و تعمیرات کا ڈیپارٹمنٹ ہے، جہاں حکام، ٹھیکیداروں، اور بینک عملے کی ملی بھگت نے اسے ممکن بنایا۔ اپر کوہستان سے صرف 29 ارب روپے کی لوٹ مار کا تخمینہ لگایا گیا، جبکہ ایک ڈمپر ٹرک ڈرائیور، ممتاز، کے اکاؤنٹ میں 4.5 ارب روپے کی موجودگی اور 7 ارب روپے کے مشکوک لین دین نے سب کو حیران کر دیا۔
نیب نے جولائی 2025 تک اس معاملے کی انکوائری کو باقاعدہ تحقیقات میں تبدیل کر دیا، اور اب تک 25 ارب روپے کے اثاثے یا تو بحال کیے جا چکے ہیں یا منجمد کر دیے گئے ہیں۔ ان میں 77 لگژری گاڑیاں، جن میں بی ایم ڈبلیو، پورشی، مرسڈیز، اور ٹویوٹا لینڈ کروزر شامل ہیں، جن کی مالیت 940 ملین روپے ہے، ایک ارب روپے سے زائد کی نقدی، تین کلوگرام سونا، 73 بینک اکاؤنٹس جن میں پانچ ارب روپے سے زائد موجود ہیں، اور 109 املاک شامل ہیں۔ ان املاک میں ایک لگژری بنگلہ، جو ڈرامہ پری زاد میں نمایاں تھا، 30 مکانات، 25 فلیٹس، اور چار فارم ہاؤسز بھی شامل ہیں۔ نیب نے فنانس ڈیپارٹمنٹ، ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس کوہستان، مواصلات و تعمیرات ڈیپارٹمنٹ، اور اکاؤنٹنٹ جنرل آفس سے اہم ریکارڈز ضبط کیے ہیں۔ ایک کلیدی ملزم، ٹھیکیدار محمد ایوب، گرفتار ہو چکا ہے، جس کے اکاؤنٹ میں تین ارب روپے منتقل کیے گئے تھے۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے یہ فنڈز استعمال کر کے سیاستدان اعظم سواتی سے منسلک جائیداد خریدی۔ نیب نے ایک سینئر کے پی حکومتی عہدیدار اور ایک پی ٹی آئی رہنما کو بھی طلب کیا ہے، جن کے بڑے لین دین جائیداد کی خریداری سے منسلک ہیں۔
مئی 2025 میں اکاؤنٹنٹ جنرل آف خیبرپختونخوا نے درجنوں مشکوک افراد اور 52 بینک اکاؤنٹس کی نشاندہی کی۔ نیب کے پاس موجود 1,293 چیکوں کے ریکارڈز سرکاری ڈیٹابیس سے غائب تھے۔ اکاؤنٹنٹ جنرل نے فنانس ڈیپارٹمنٹ کے دس حکام کے خلاف تادیبی کارروائی اور اپر کوہستان کے ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفیسر کی فوری معطلی کی سفارش کی۔ ایک مشکوک لین دین کی مالیت 3.47 ارب روپے تھی، جو اپر کوہستان میں 29 ارب روپے کی کل کرپشن کا حصہ ہے۔
اسپیکر بابر سلیم سواتی کی سربراہی میں کے پی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے مئی 2025 میں تحقیقات کو تیز کیا اور فنانس ڈیپارٹمنٹ، مواصلات و تعمیرات ڈیپارٹمنٹ، اور اکاؤنٹنٹ جنرل آفس سے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ کمیٹی نے ایگزیکٹو انجینئرز اور سب ڈویژنل افسران کی تین دن کے اندر معطلی کا حکم دیا اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے صوبے کے تمام 36 اضلاع کے سرکاری اکاؤنٹس کا خصوصی آڈٹ کرنے کی ہدایت کی، جس کی رپورٹ دسمبر 2025 تک متوقع ہے۔ اسکینڈل میں مواصلات و تعمیرات ڈیپارٹمنٹ کے اکاؤنٹ کے غلط استعمال کا انکشاف ہوا، جہاں جعلی چیک بکس کے ذریعے 21.37 ارب روپے کی غیر تصدیق شدہ ادائیگیاں کی گئیں۔ اسپیکر بابر سلیم سواتی نے نیب کی 20 ارب روپے کی وصولی کو سراہا اور امید ظاہر کی کہ لوٹی ہوئی رقم کا 99 فیصد واپس مل جائے گا۔
ہزارہ ڈویژن، بشمول ایبٹ آباد اور مانسہرہ، میں چھاپوں سے 1.59 ارب روپے کی وصولی ہوئی، جس میں 1.5 ارب روپے نقد، تین کلوگرام سونا، اور 50,000 ڈالر شامل ہیں۔ اب تک 50 سے زائد افراد سے پوچھ گچھ ہوئی ہے، جبکہ 100 دیگر زیر جائزہ ہیں۔
سیاسی محاذ پر، وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے مئی 2025 میں تحقیقات کا حکم دیا اور ایک کابینہ کمیٹی تشکیل دی تاکہ شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ مشیر برائے وزیراعلیٰ بیرسٹر سیف نے نیب کے اقدامات کی حمایت کی اور ملوث افراد کے لیے سخت قانونی نتائج کی یقین دہانی کرائی۔ دوسری جانب، اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد اللہ نے الزام لگایا کہ تفتیش کار خود کرپشن میں ملوث ہیں اور صوبے کے چیف ایگزیکٹو کو اسکینڈل کی شدت کا علم نہیں تھا۔ سوشل میڈیا پر عوامی ردعمل غم و غصے سے بھرپور ہے، جہاں لوگ لگژری اثاثوں کی وصولی اور پی ٹی آئی رہنماؤں سمیت حکام کی شمولیت پر بات کر رہے ہیں۔
اس اسکینڈل نے صوبے کے مالیاتی نظام کی گہری خامیوں کو عیاں کیا ہے۔ اکاؤنٹنٹ جنرل آفس اور ڈائریکٹوریٹ جنرل آڈٹ جیسے نگران اداروں کی ناکامی نے اس فراڈ کو ممکن بنایا۔ جعلی ریفنڈز، جھوٹے ریکارڈز، اور غیر مجاز ادائیگیوں نے مالیاتی ضوابط کی دھجیاں اڑائیں، جبکہ داسو میں بینک عملے پر غیر قانونی منتقلیوں کا الزام ہے۔ شواہد حکام، ٹھیکیداروں، اور سیاسی شخصیات کی طرف اشارہ کرتے ہیں، لیکن جولائی 2025 تک کوئی سیاسی شخصیت باضابطہ طور پر ملوث نہیں کی گئی۔ فنانس اور مواصلات و تعمیرات ڈیپارٹمنٹس کی طرف سے عدم تعاون نے تحقیقات کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔
جولائی 2025 تک نیب کی 25 ارب روپے کی وصولی ایک بڑی کامیابی ہے، لیکن ابھی مزید فنڈز کی تلاش جاری ہے۔ ایک سینئر پی ٹی آئی رہنما اور حکومتی عہدیدار کو طلب کیے جانے سے سیاسی تناؤ بڑھ سکتا ہے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی طرف سے دسمبر 2025 تک طلب کردہ خصوصی آڈٹ صوبے کے 36 اضلاع کے دس سالہ مالیاتی ریکارڈز کا جائزہ لے گا۔ نیب کی تحقیقات جاری ہیں، اور مزید گرفتاریوں اور اثاثوں کی وصولی کی توقع ہے۔ کے پی حکومت کی کابینہ کمیٹی جلد اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔
یہ اسکینڈل نہ صرف مالیاتی بدعنوانی کی داستان ہے بلکہ نظام کی کمزوریوں اور اعتماد کی خرابی کی عکاسی بھی ہے۔ نیب کی کوششوں سے 40 ارب روپے میں سے 25 ارب کی وصولی ایک امید کی کرن ہے، لیکن مکمل انصاف اور شفافیت کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ تحقیقات جاری ہیں، اور عوام کی نظریں اس پر جمی ہیں کہ کیا یہ کیس صوبے کے نظام کو درست کرنے کی طرف ایک قدم ثابت ہوگا یا محض ایک اور کہانی بن کر رہ جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں