جاز بانڈہ کوہستان دیر کا مشہور سیاحتی مقام

37

جاز بانڈہ کوہستان دیر کا مشہور سیاحتی مقام ہے۔ کچھ سال پہلے یہاں چاروں طرف گھنا جنگل اور درمیان میں بڑے بڑے سرسبز میدان ہوا کرتے تھے۔ جب یہ علاقہ مشہور ہوا تو مقامی لوگوں نے جنگل کاٹ کر میدانوں میں ہوٹلز بنائے اس لئے آج کل یہاں سرسبز میدان اور جنگل کم اور ہوٹلز زیادہ نظر آتے ہیں۔
کچھ سال پہلے میں بذات خود ان بزرگوں سے ملا تھا جنہیں مقامی تقسیم میں یہ علاقہ ملا ہے۔ میری کوشش تھی کہ جگہ جگہ ہوٹل بنانے کے بجائے اگر پورا قبیلہ مل کر ایک جگہ اچھا سا ہوٹل بنائے جہاں سیاحوں کو تمام مطلوبہ سہولیات میسر ہو اور جو آمدنی حاصل ہو انہیں جنگل کی رائلٹی کی طرح آپس میں مساوی تقسیم کرے تو اس سے ایک طرف اگر علاقے کا قدرتی حسن متاثر نہیں ہوگا تو دوسری طرف زمین تقسیم در تقسیم سے بچ جائی گی یوں سرسبز میدان اور گھنا جنگل دونوں بچ جائیں گے، لیکن بجائے اس کے کہ کوئی میری بات سنتا سب نے میری عمر دیکھ کر میرا مذاق اڑایا۔ سب نے کہا بچوں کا کام کھیلنا ہوتا نا کہ بزرگوں کے کاموں مداخلت کرنا۔ میرے ساتھ دو بندے اور بھی تھے آج وہ اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ میں نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح بزرگوں کو اپنی بات سمجھا سکوں لیکن کسی نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی بلکہ سب نے میرا خوب مذاق اڑایا۔ آج وہی ہوا جو میں نے کہا تھا۔
کہاں گیا جاز، بینڑ اور کونڑ کے سرسبز میدانوں کے کنارے گھنا جنگل ؟۔ سرسبز میدان بھی ہوں غائب ہوئے جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔ ابھی یہی حال کوہستان دیر کے دوسرے علاقوں کے ساتھ ہوگا۔ میں فیسبوک کے ذریعے ایک بار پھر اپنے لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ جاز اور کمراٹ میں جو ہوا وہ دوسرے مقامات پر نہیں دہرانا۔ ابھی 80 فیصد کوہستان گمنام ہے۔ آہستہ آہستہ ایک ایک کرکے یہ علاقے دنیا کے سامنے آئیں گے اس لئے خدا کے لیے ان باتوں پر غور کریں تو یہ جنت نظیر علاقے تباہ نہیں ہوگے۔
ہماری چراگاہیں، جنگل مشترک ہو سکتے ہیں تو ہوٹل کیوں نہیں ؟۔ ہرے بھرے میدانوں میں جھونپڑی ہوٹلز بنانے کے بجائے پورا قبیلہ مل کر ایک ہی معیاری ہوٹل بنائے جہاں سیاحوں کو تمام مطلوبہ سہولیات میسر ہو۔ ہوٹل سے جو آمدنی حاصل ہو اسے رائلٹی کی طرھ پورے قبیلے میں مساوی تقسیم کیا جائے۔ علاقے میں درخت کاٹنے اور کچرا پھیلانے پر پابندی عائد کی جائے۔ ہوٹل نہیں بنائیں گے تو درخت کیوں کاٹیں گے؟۔ ہوٹلز نہیں بنائیں گے تو سرسبز میدان بچ جائیں گے۔ جنگل ہوگا، سرسبز میدان ہوں گے اور ہوٹل میں تمام مطلوبہ سہولیات میسر ہوں گے تو زیادہ لوگ آئیں گے۔
ایک دوسرے کے ساتھ اگر مقابلہ کرنا ہے تو کسی مثبت کام میں کریں ہوٹلز بنانے کا کیا مقابلہ ؟۔ ایک دوسرے کے ساتھ ضد بازی میں ہم اس جنت نظیر علاقے کو جہنم بنا رہے ہیں۔ لوگ یہاں اس لئے نہیں آتے کہ یہاں کوئی پیر ویر کا مزار ہے اور نہ وہ ہمارے جھونپڑی ہوٹلز کے کھانا کھانے آتے ہیں بلکہ وہ گھنے جنگل اور سرسبز میدانوں کو دیکھنے آتے ہیں۔ جنگل کاٹ کر میدانوں میں ہوٹل بنائیں گے تو یہاں کوئی نہیں آئے گا۔ پھر نہ ہمارے ہوٹل ہمیں فائدہ دے سکتے ہیں اور نہ ہمارے بنجر پہاڑ۔ درخت اور سبزہ ہی سب کچھ ہے اس لئے انہیں بچانے کی کوشش کرنی چاہئے دوسری صورت میں چار دن کی چاندنی ہوگی پھر اللہ اللہ خیر صلا۔

اب بھی وقت ہے ہم اگر چاہئے تو اپنے اس خوبصورت گھر کو بچا سکتے ہیں بعد میں ہم لاکھ چاہیں کچھ نہیں کر سکیں گے۔ بعد میں افسوس کرنے سے بہتر ہے ابھی خوب سوچ سمجھ کر فیصلے کریں۔ ہمارے یہ فیصلے صدیوں تک ہماری نسلوں کو متاثر کریں گی۔ ٹھیک اسی طرح جب صدیوں پہلے ہمارے بزرگوں نے مذہب تبدیلی سے انکار کیا اور ہم ان پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ صدیوں پہلے اگر وہ سوچ سمجھ کر فیصلے کرتے تو آج ہمارے پاس زیریں دیر و سوات و باجوڑ کی زرخیز زمین ہوتی، ہم ان پہاڑوں میں یوں خوار نہ ہوتے۔

گمنام کوہستانی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں