ٹریفک قوانین اور بھاری جرمانے : فائدہ کس کا؟

5

تلخیاں
ٹریفک قوانین اور بھاری جرمانے : فائدہ کس کا؟
علی احمد ڈھلوں
Thursday’s Column, Daily 92 News & Daily Leader.
آج کل ہمارے ہاں حالات اس قدر پیچیدہ ہو گئے ہیں کہ کوئی بھی نیا قانون بنتاہے، یا بنے ہوئے قانون میں ترمیم ہوتی ہے یانیا آرڈیننس نافذ کیا جاتا ہے تو وہ الحمد اللہ عوام کے لیے نہیں ہوتا،،، بلکہ عوام کو تنگ کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے،،، جیسے ٹریفک کے بھاری بھرکم چالان دیکھ لیں،،، بڑے شہروں کے ہر چوک پر دیکھ لیں آپ کو ٹریفک اہلکاروں کے ارد گرد بحث و مباحثے ہوتے دکھائی دیں گے،،، کہیں جھگڑے ہو رہے ہوں گے،،، کوئی منت سماجت کر رہا ہوگا تو کوئی خود سوزی کی باتیں کر رہا ہوں گا اور کوئی اپنی سواری کو بیچ سڑک جلا کر اُس آگ میں خود کو جلانے کی کوشش کر رہا ہوگا۔۔۔ یہ مناظر واقعی دل سوز ہوتے ہیں اور درد دل رکھنے والوں کے لیے اذیت کا باعث بنتے ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے،،، ریاست ہے ،، ریاست کے آگے زور کس کا ؟ اور ویسے بھی ریاست نے حالیہ سالوں میں ”ماں کے کردار“ سے استعفیٰ دے رکھا ہے،،، کیوں کہ وہ کوئی بھی قانون بناتی ہے یا ترامیم کرتی ہے تو اُس میں سے سب سے پہلے عوام کے حقوق اور اُن کے مسائل کو نکال کر ایک طرف رکھ دیتی ہے۔خیر بات ہو رہی تھی ٹریفک چالان کے حوالے سے تو گزشتہ روز حکومت پنجاب نے صوبے میں محفوظ سفر اور حادثات کی روک تھام کے پیش نظر موٹر وہیکل آرڈیننس میں ترمیم کے بعد زیرو ٹالرنس پالیسی نافذ العمل کر دی اور صرف چار روز میں 18 ہزار سے زائد مقدمات درج کر کے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو گرفتار کیا ہے۔اور گزشتہ چار روز میں دولاکھ 47 ہزار سے زائد خلاف ورزیوں پر چالان ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں۔ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر 25 کروڑ 73 لاکھ کے جرمانے عائد کیے گئے جب کہ کریک ڈاو¿ن کے دوران 49 ہزار 961 موٹرسائیکلیں گاڑیاں بھی ضبط کی گئی ہیں۔
پھر آپ کراچی کو دیکھ لیں جہاں کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر جرمانوں کا تناسب پنجاب سے بھی دو تین گنا زیادہ ہے،،، مثلاََ کراچی میں ڈرائیونگ لائسنس نہ رکھنے پر پر 20 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے ،اسی طرح، ہیلمٹ نہ پہننے پر کراچی میں 5 ہزار روپے ،سگنل توڑنے کی صورت میں جرمانہ 5 ہزار روپے ، اوور اسپیڈنگ پر 5 ہزار روپے ،ون وے کی خلاف ورزی پر 25 ہزار روپے جرمانہ رکھا گیا ہے اب مجھے بتایا جائے کہ جس شخص پر 25ہزار ، 10ہزار روپے جرمانہ ہوگا،،، تو وہ پولیس کے دو چار ہزار روپے دے کر جان نہیں چھڑا لے گا؟ تو اس میں نقصان کس کا ہوا؟ عوام کا؟ اور فائدہ کس کا ہوا؟ پولیس اہلکاروں کا؟
بہرحال ان ٹریفک قوانین اور جرمانوں کو دیکھتے ہوئے مجھے تو دونوں حکومتیں فلمی سین کی طرح ایکٹ کرتی دکھائی دے رہی ہیں،،، بلکہ ایک تیلکو ”Neno Ane Bharat“ نامی فلم بھی اسی قسم کی کہانی پیش کرتی ہے،،، جس میں فلم کا ہیرو مہیش بابو ہے جو بیرونِ ملک پڑھا ہوا ایک نوجوان ہے۔ ا±س کے والد ریاست کے وزیراعلیٰ ہوتے ہیں، لیکن ان کی اچانک موت کے بعد سیاسی بحران پیدا ہو جاتا ہے۔پارٹی کو بچانے اور ریاست میں استحکام لانے کے لیے بھارت کو وزیراعلیٰ بنادیا جاتا ہے۔بھارت ایماندار، مضبوط ارادے والا اور صاف گو لیڈر ثابت ہوتا ہے جوکرپشن کے خلاف سخت اقدامات کرتا ہے،،، پولیس سسٹم کو بہتر بناتا ہے،،، سڑکوں، تعلیم اور ہسپتالوں کے نظام کو اپ گریڈ کرتا ہے،،، ٹریفک رولز بہتر بناتا ہے،،، طاقتور مافیاز اور کرپٹ سیاستدانوں سے ٹکرا جاتا ہے،،، اسی دوران اُس کی پرسنل لائف میں وسندھرا (کیارا اڈوانی) آتی ہے، جس سے ا±س کی محبت کی کہانی بھی چلتی ہے۔فلم کا اصل زور اچھی حکمرانی اور ایک مضبوط، ایماندار لیڈر کے نظریے کو دکھانا ہے،،، لیکن میرے خیال میں وہ ایک فلم تھی،،، اور فلم کا حقیقی دنیا سے ویسے ہی کوئی تعلق نہیں ہوتا ،،، اس لیے میرے خیال میں حکومت بغیر سوچے سمجھے اور بغیر تحقیق کیے جرمانے کر رہی ہے،،، اور یہ لوگ بھی مہیش بابو بننے کی کوشش کر رہے ہیں،،، حالانکہ ان کا دور دور تک اس سے تعلق نہیں ہے!
بلکہ بادی النظر میں حکومت ٹریفک چالان کے جرمانے کر کے کئی حکومتی اخراجات پورے کرنا چاہ رہے ہیں،،، آپ لائسنس فیس کو دیکھ لیں،،، کس قدر فیس بڑھا دی گئی ہے،،، لیکن کارکردگی صفر بٹا صفر ہے۔ ۔۔ حالانکہ اس میں ایک اور بڑا خلاءیہ ہے کہ اُتنے پیسے اکٹھے ہوں گے نہیں جتنے رشوت کے ذریعے پولیس کھا لے گی،،، اور پھر یہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے کہ سی ٹی او لاہور اہلکاروں کو ٹارگٹ دیتا ہے کہ وہ ہر ٹیم سے 100یا اس سے زیادہ چالان وصول کرے گا،،، پھر اہلکار جب تک چالان پورے نہیں ہوتے تب تک وہ ہر ایک کے چالان کرتا رہتا ہے۔ اس میں قصوروار تو قابو آہی جاتا ہے،،، جبکہ بے قصور بھی رگڑے جاتے ہیں اور الزام تراشی کا نیا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے،،، ٹریفک پولیس اہلکار کہتا ہے کہ آپ فون پر بات کر رہے تھے، جبکہ متاثرہ شخص انکاری رہتا ہے۔ لڑائی بڑھتی بڑھ جاتی ہے،،، کیوں کہ یہ چیز دونوں اطراف سے ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہوتی ہے۔ اگر سی ٹی او کو ٹارگٹ دینے کا زیادہ ہی شوق ہے تو وہ اہلکاروں کو یہ کہہ سکتا ہے کہ مجھے بڑی گاڑیوں ، لینڈکروزر وغیرہ کے 50چالان چاہیئں۔۔۔ تو پھر میں دیکھتا ہوں کہ اہلکار کیسے ٹارگٹ پورا کرتا ہے؟ یا سی ٹی او یہ کہہ دیں کہ ڈیفنس لاہور یا کراچی میں ہر ہفتے یا اتوار کی رات ہیوی بائیکس کی ریسیں لگتی ہیں،،، اُن کے چالان کرنے ہیں،،، اور وہ موٹربائیک تو ہوتی بھی بغیر نمبر پلیٹس یا وی آئی پی نمبر پلیٹس کی ہیں جو 5سو سے ہزار سی سی تک بھی ہوسکتی ہیں۔ مگر اُن پر یہ ہاتھ ڈال لیں تو میں ان کو مان جاﺅں۔ اس حوالے سے سی ٹی او ہمت کریں، مریم نواز ہمت دکھائیں،،، ہم اُن کے ساتھ ہیں،،، پرسوں جج صاحب کے بیٹے نے سکوٹر پر سوار دو خواتین پر گاڑی چڑھا دی تھی،،، اُن پر ہاتھ ڈالا جائے گا تو میں سمجھوں گا کہ واقعی قانون پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔ اب میرا گھر ڈیفنس لاہور میں ہے،،، میرے گھر میری بھانجی مجھ سے ملنے آتی ہے،،، وہ گاڑی گھر کے باہر کھڑی کرتی ہے،،، جب وہ واپسی کے لیے نکلتی ہے تو اُس کی گاڑی کے چاروں ٹائر الائے رم سمیت اُتار لیے جاتے ہیں،، اب مجھے بتائیں کہ میں جس سوسائٹی میں رہتا ہوں وہاں اس طرح کی واردات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ،،، لیکن وہاں پر اگر یہ واردات ہوتی ہے تو میں کس کو جرمانہ کروں ؟ اب یہاں پر ڈی آئی جی صاحب کوئی ایکشن لیں تو میں بھی اُن کا گرویدہ بن جاﺅں !
لیکن یہ کسی مافیا پر ہاتھ نہیں ڈالیں گے،،، بلکہ ان کے ہتھے غریب موٹر سائیکل سوار چڑھا ہوا ہے، ہزار روپے دیہاڑی لگانے جانے والا مزدور ان کے قابو آجاتا ہے،،، جس پر کم از کم 2ہزار روپے جرمانہ کیا جاتا ہے،،، بتائیں وہ بے چارہ خود سوزی نہ کرے تو کیا کرے؟ حکومت کو چاہیے کہ ذاتی تشہیر کرنے کے بجائے سب سے پہلے سسٹم کو ٹھیک کریں، آگہی مہم چلائیں،، ہمارے ڈرئیورز کو علم ہونا چاہیے کہ لائن اور لین میں فرق کیا ہے؟ ہمارے طلباءکو اس حوالے سے مکمل آگہی ہونی چاہیے،،، میٹرک کے امتحان میں ٹریفک رولز اور پیدل چلنے کے حوالے سے اخلاقیات کا الگ سے امتحان ہونا چاہیے،،، اور اُس کے باقاعدہ نمبرز ہونے چاہیئں۔ کیوں کہ ایک شخص زیبرا کراسنگ کی خلاف ورزی کرتا ہے،،، جبکہ اُسے اس بارے میں علم ہی نہیں ہے کہ ٹریفک قوانین اس حوالے سے کیا کہتے ہیں،،، موٹرسائیکل سواروں کو علم ہی نہیں ہے، کہ فاسٹ ٹریک پر موٹرسائیکل چلانے پر پابندی ہے،،، لیکن وہ پھر بھی سٹرک پر موجود تمام ٹریکس استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر بعض اوقات گاڑی والے کسی کو اوور ٹیک کرنے کے لیے نیچے والی لائن استعمال کرتے ہیں،،، کیوں کہ اُنہیں علم ہی نہیں ہے کہ کسی کو نیچے سے یا لیفٹ سائیڈ اوورٹیک کرنا سنگین کوتاہی ہے۔ آج میرے لیفٹ سائیڈ سے ایک موٹر سائیکل سوار نے کراس کیا،،، میں نے اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھا،،، تو اُس نے بھی جواباََ مجھے دیکھا ،،، جیسے وہ کہہ رہا ہو؟ کیا مسئلہ ہے؟ مطلب! اُسے علم ہی نہیں ہے کہ اُس نے ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کی ہے۔
یعنی سب سے پہلے عوام کو ٹریفک سگنلز کی پابندی کے حوالے سے شعور دیں،، اور پھر ٹریفک رولز پر آپ لاکھوں کے جرمانے کریں،،، مگر اس سے پہلے سڑکوں پر ناجائز تجاوزات تو ختم کروائیں،،، حالانکہ پیرا فورس پنجاب نے اس حوالے سے کافی کام کیا ہے،،، لیکن جیسے ہی شام ڈھلتی ہے، سڑکیں دوبارہ ٹھیلے والوں سے بھر جاتی ہیں۔۔۔
بہرکیف یہاں پر کوئی قانون عوام کے لیے نہیں ہوتا،،، بلکہ اُنہیں تنگ کرنے کے لیے ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں،،، اور پھر ان کا مقصد تو عوام کو ٹھیک کرنا ہے ہی نہیں ،،، یہ چاہتے ہیں کہ یہ بے عقل اور شعور کے بغیر زندگی گزارتے رہیں،،، تاکہ ان کے مسائل بڑھتے رہیں اور یہ پیسے دیتے رہیں۔ بلکہ میں یہاں یہ کہوں گا کہ حکومت نے عوام کو ان پولیس والوں کے حوالے کر دیا ہے،،، وہ پولیس جو طیفی بٹ کو مارسکتی ہے، جو ہر گھر میں بغیر اجازت نامے گھس جاتی ہے، کیا وہ یہ نہیں کہہ سکتی نہیں تم نے یہ کام کیا ہے،،، نہیں تم فون پر بات کر رہے تھے،،، اس کا فائدہ صرف پولیس کو ہے،، حالانکہ اُس کے پاس لائسنس بھی موجود ہے،،، لیکن اُسے آگہی ہی نہیں ہے ان قوانین کی۔ اور پھر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہمارے بچوں کو علم ہی نہیں ہے کہ ایمرجنسی نمبرز کیا ہیں؟ اگر کہیں جھگڑا ہو رہا ہے تو کہاں کال کرنی ہے، اگر کہیں ایمبولینس کی ضرورت ہے تو کہاں کال کرنی ہے،،، لہٰذااگر آپ نے لائسنس دینا ہے تو پھر لائسنس کو مشکل بنائیں،،، یو اے ای، یو ایس، یوکے یا یورپ میں لائسنس حاصل کرنا ایک مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے،،، اور لائسنس ملنے کے بعد کسی کی جرا¿ت نہیں ہوتی کہ وہ ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کر لے۔ وہاں کئی کئی مرتبہ لوگ ریجیکٹ ہوتے ہیں۔ اور پھر ان جرمانوں کا اطلاق کرنے سے پہلے ریسرچ کروائیں کہ کتنا جرمانہ ہونا چاہیے؟ اور کتنا اسے بڑھانا چاہیے،،، یا کس قدر جرمانہ ہو گا تو عوام اسے بخوشی قبول کریں گے؟ ورنہ نفرت کا لاوا قوم کے اندر بڑھتا رہے گا!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں