پولیس پر غیرقانونی حبس، بہیمانہ تشدد، جھوٹے مقدمے اور رشوت طلبی کے سنگین الزامات

32

مانسہرہ: عمران خان بمقابلہ قائم علی شاہ SHO پھلڑہ
پشاور ہائی کورٹ ایبٹ آباد بنچ میں رٹ پٹیشن دائر
ایڈیشنل سیشن جج 6 مانسہرہ کی عدالت میں سیکشن 22-اے سی آر پی سی کے تحت سماعت 11 اکتوبر کو مقرر۔

ضلع مانسہرہ کے علاقے درویش پڑھنہ کے رہائشی عمران خان ولد گل زمان خان نے تھانہ پھلڑہ پولیس کے خلاف غیرقانونی حبسِ بےجا، بہیمانہ تشدد، رشوت طلبی اور جھوٹا مقدمہ درج کرنے کے الزامات کے تحت پشاور ہائی کورٹ ایبٹ آباد بنچ میں رٹ پٹیشن دائر کر دی ہے۔

درخواست گزار کے مطابق، جب انہوں نے تھانہ عملے کو “تہنی نہ چوپڑنے” (یعنی رشوت دینے سے انکار) کیا تو پولیس اہلکاروں نے ان پر جھوٹا مقدمہ درج کر کے شدید جسمانی تشدد کیا۔

ذرائع کے مطابق عمران خان نے اسی واقعے پر ایڈیشنل سیشن جج 6 مانسہرہ، جناب نثار خان کی عدالت میں سیکشن 22-اے سی آر پی سی کے تحت ایک علیحدہ پٹیشن بھی دائر کی ہے۔

اس پٹیشن میں ایس ایچ او قائم علی شاہ، ڈی ایس پی سرکل مدثر ضیاء، محرر جنید خان اور دیگر 4/5 اہلکاران کو فریق بنایا گیا ہے۔یہ کیس 11 اکتوبر 2025 کو سماعت کے لیے مقرر ہے۔

عمران خان کے مطابق، 29 ستمبر 2025 کو تھانہ پھلڑہ کے محرر جنید خان اور ایس ایچ او قائم علی شاہ نے انہیں بلاجواز گرفتار کر کے تھانہ میں بند کیا۔

ان پر تشدد کیا گیا، جیب سے 13 ہزار 700 روپے، موبائل فون، گھڑی اور دیگر قیمتی سامان چھین لیا گیا۔
بعد ازاں ان کے خلاف ایک جھوٹا مقدمہ تیار کیا گیا

درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ محرر جنید نے ان پر غیرقانونی اسلحہ رکھنے کا الزام لگایا، حالانکہ ان کے پاس موجود .222 بور رائفل لائسنس یافتہ تھی، جس کا ثبوت تھانہ میں جمع کروایا گیا۔

عمران خان نے اپنی درخواست کے ساتھ آڈیو شواہد بھی منسلک کیے ہیں، جن میں محرر جنید واضح طور پر یہ کہتے سنے جا سکتے ہیں:
“آپ بندوق اپنے پاس رکھو، جب میں فون کروں گا تو ساتھ لے آنا، ایس ایچ او فوٹو نکالے گا، پھر آپ ایس ایچ او کو تہنی چوپڑنا، وہ آپ کو مچلکے پر چھوڑ دے گا۔”

ایس ایچ او قائم علی شاہ پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک جعلی مراسلہ تیار کیا، جس میں یہ ظاہر کیا گیا کہ وہ بمع نفری گشت پر تھا اور سوشل میڈیا اطلاع پر عمران خان کو نامزد کیا گیا۔

تاہم عدالت میں نہ کوئی اسلحہ پیش کیا گیا، نہ تصویر، نہ لنک، اور نہ ہی کوئی ثبوت کہ اطلاع واقعی کسی سوشل میڈیا پوسٹ سے ملی تھی۔

دورانِ حراست تشدد کے شواہد عدالتی میڈیکل ایگزامینیشن میں ثابت ہو چکے ہیں، جو اب مقدمے کا حصہ بن چکے ہیں۔
رپورٹ میں واضح ہے کہ متاثرہ شخص کے جسم کے نازک اعضا پر شدید ضربات لگائی گئیں۔

1. رشوت طلبی کی آڈیو ریکارڈنگ
2. جعلی مراسلہ (تحریری شہادت)
3. عدالتی میڈیکل رپورٹ
4. گواہان کے بیانات کہ متاثرہ شخص پہلے ہی تھانہ میں موجود تھا۔

ماہرینِ قانون کے مطابق، اگر یہ الزامات درست ثابت ہوئے تو ملزمان پر
Torture and Custodial Death (Prevention and Punishment) Act, 2021،
تعزیراتِ پاکستان اور انسدادِ رشوت ستانی قوانین کے تحت سنگین مقدمات قائم کیے جا سکتے ہیں۔

باوثوق ذرائع کے مطابق، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر مانسہرہ نے واقعے کی ابتدائی رپورٹ طلب کر لی ہے،
تاہم تاحال پولیس کی جانب سے کوئی باضابطہ مؤقف سامنے نہیں آیا۔
اطلاعات کے مطابق، واقعے کا تمام بوجھ محرر جنید پر ڈال کر اسے معطل کر کے لائن حاضر (Line Close) کر دیا گیا ۔

یہ کیس 11 اکتوبر 2025 کو ایڈیشنل سیشن جج مانسہرہ کی عدالت میں سماعت کے لیے مقرر ہے،
جبکہ پشاور ہائی کورٹ ایبٹ آباد بنچ میں دائر رٹ پٹیشن پر بھی کارروائی جاری ہے۔

عمران خان کا کہنا ہے کہ اگر پولیس نے تفتیش ایف آئی اے کو منتقل نہ کی تو وہ پشاور ہائی کورٹ کے ذریعے آئینی درخواست دائر کر کے کیس ایف آئی اے کے سپرد کرنے کی استدعا کریں گے۔

انہوں نے کہا “اگر مجھے یا میرے اہل خانہ کو کوئی جانی یا مالی نقصان پہنچا تو اس کی تمام تر ذمہ داری ایس ایچ او قائم علی شاہ، ڈی ایس پی مدثر ضیاء، محرر جنید اور ان کے ساتھی اہلکاروں پر عائد ہوگی۔
عوامی حلقوں اور انسانی حقوق کے نمائندوں نے مطالبہ کیا ہے کہ معاملے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کر کے ذمے داران کو قانون کے مطابق سزا دی جائے

1. ایس ایچ او قائم علی شاہ، ڈی ایس پی مدثر ضیاء، محرر جنید خان اور دیگر ملوث اہلکاروں کو فوری معطل کر کے فوجداری کارروائی عمل میں لائی جائے۔
2. مقدمے کی آزادانہ تحقیقات ایف آئی اے یا کسی غیرجانبدار ایجنسی کے سپرد کی جائیں۔
3. عمران خان اور ان کے اہل خانہ کو تحفظ فراہم کیا جائے کیونکہ متعلقہ اہلکار دھمکیاں دے رہے ہیں۔
4. حکومت جھوٹے مقدمات اور پولیس گردی کے انسداد کے لیے پالیسی ریفارمز متعارف کرائے۔
5.
عمران خان نے کہا “یہ مقدمہ صرف میرے خلاف نہیں بلکہ ہر اس پاکستانی کے خلاف ظلم کی مثال ہے
جو انصاف کے لیے دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔میں پشاور ہائی کورٹ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اس جھوٹے مقدمے کو ختم کر کے
قانون کی بالادستی کو یقینی بنائے گی۔”

انہوں نے میڈیا اور انسانی حقوق کے نمائندوں سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے کو قومی سطح پر اجاگر کریں
تاکہ پولیس گردی، جھوٹے مقدمات، اور انسانی وقار کی پامالی جیسے مظالم کے خلاف آواز بلند ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں