حویلیاں : ایبٹ آباد یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں پیش آنے والے تصادم کے اصل حقائق سامنے آ گئے۔
یونیورسٹی ذرائع کے مطابق ادارے میں ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد ہے۔ تاہم ایک مذہبی جماعت سے وابستہ طلباء نے یونیورسٹی کے اندر مارچ کے انعقاد کیلئے وائس چانسلر کو درخواست دی، جسے وائس چانسلر نے رجسٹرار کو اس ہدایت کے ساتھ بھیجا کہ وہ خود بھی اس پروگرام میں شریک ہوں۔ لیکن طلباء کی جانب سے بعد ازاں رجسٹرار آفس سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔
چند روز قبل کچھ طلباء نے کلاسوں میں زبردستی داخل ہو کر دیگر طلباء و طالبات کو احتجاج میں شامل ہونے پر مجبور کیا، جس پر ڈسپلنری کمیٹی نے تعلیمی ماحول میں خلل ڈالنے کے الزام میں ملوث طلباء کو شوکاز نوٹس جاری کر دیے۔
نوٹس ملنے کے بعد طلباء کے ایک گروپ نے ڈسپلنری کمیٹی کی کارروائی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور پیر کے روز یونیورسٹی کے مین گیٹ پر احتجاج شروع کر دیا۔ اس دوران یونیورسٹی کے دو گروپ بن گئے۔
ایک گروپ احتجاج کر رہا تھا جبکہ دوسرا گروپ کلاسوں میں شرکت کا خواہش مند تھا۔
صورتحال پر قابو پانے کے لیے پولیس کی بھاری نفری طلب کی گئی اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایڈمن عدیل خان بھی موقع پر موجود رہے تاکہ تصادم سے بچا جا سکے، تاہم دونوں گروپوں میں جھگڑا ہو گیا جس کے نتیجے میں پولیس کو مداخلت کرنا پڑی۔
بعد ازاں یہ معاملہ ایبٹ آباد یونین آف جرنلسٹس کے صدر عاطف قیوم، سینئر صحافی سہیل عباسی، احمد سلیم سواتی، خانویز خان جدون، رمیض سواتی، حسن خان، جمال خان، لعل عباسی اور جان عالم عباسی کی کوششوں سے افہام و تفہیم کے ساتھ حل ہو گیا۔
دونوں گروپوں نے باہمی راضی نامہ طے کیا اور اس موقع پر طلباء نے صدر ایبٹ آباد یونین آف جرنلسٹس عاطف قیوم، ڈی ایس پی سرکل حویلیاں اور ایس ایچ او تھانہ حویلیاں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے دانشمندی سے صورتحال کو سنبھالا۔