مانسہرہ : مانسہرہ اور ایبٹ آباد کے بازاروں میں مچھلی خریدنے والے شہری ان دنوں ایک نئی قسم کے استحصال کا شکار ہیں۔ عام مشاہدہ ہے کہ ان شہروں کے اکثر مچھلی فروش گاہکوں سے مچھلی فروخت کرتے وقت غیر منصفانہ رویہ اختیار کر رہے ہیں، جو نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے بلکہ دیانتداری کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔
طریقہ واردات کچھ یوں ہے کہ مچھلی فروش پہلے پوری مچھلی تول کر گاہک سے اس کی مکمل قیمت وصول کرتے ہیں۔ بعد ازاں جب مچھلی کے ٹکڑے کیے جاتے ہیں تو مچھلی کا سر (Head) اپنے پاس رکھ لیا جاتا ہے۔ گاہک کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اس کی خریدی گئی مچھلی کا ایک اہم حصہ اس کے حصے میں آیا ہی نہیں۔
مزید افسوسناک امر یہ ہے کہ یہی مچھلی کے سر بعد میں دوسرے گاہکوں کو تقریباً 400 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کیے جاتے ہیں۔ یوں ایک ہی چیز کی قیمت دو مرتبہ وصول کی جاتی ہے — گویا عوام کی جیب پر کھلا ڈاکا ڈالا جا رہا ہے۔
یہ طرزِ عمل نہ صرف دھوکہ دہی کے زمرے میں آتا ہے بلکہ صارفین کے اعتماد کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ بازاروں میں موجود ایسے مچھلی فروش عوام کی محنت کی کمائی کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ مچھلی کا سر بھی مچھلی کے وزن کا ایک حصہ ہوتا ہے، لہٰذا اسے الگ کر کے دوبارہ فروخت کرنا صریحاً زیادتی ہے۔
عوامی مطالبہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر مانسہرہ اور ڈپٹی کمشنر ایبٹ آباد اس معاملے کا فوری نوٹس لیں اور متعلقہ مارکیٹ کمیٹیوں کے ذریعے اس غیر منصفانہ کاروباری عمل کو روکا جائے۔ مچھلی فروشوں کے خلاف باقاعدہ کارروائی کی جائے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی دکاندار عوام کے ساتھ اس طرح کا دھوکہ نہ کر سکے۔
شفاف کاروبار، دیانت دار مارکیٹ اور صارف کے اعتماد کا تحفظ — یہی کسی بھی مہذب معاشرے کی پہچان ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ ضلعی انتظامیہ اس معاملے پر سنجیدگی سے توجہ دے گی اور عوام کو اس دوہری وصولی کے ظلم سے نجات دلائے گی۔