سیاحت کے نام پر موت کی ترغیب

38

سیاحت کے نام پر موت کی ترغیب ۔۔۔
گزشتہ دو تین سالوں سے ایک چیز مشاہدہ میں آئ ہے کہ جب سے سیاحت نے کاروبار کی شکل اختیار کرلی ہے تب سے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی ہر بندے کی یہی کوشش ہے کہ وہ سیاحت کا ان داتا بن کر سامنے آئے ۔۔۔
مسیحا کا روپ دھارے اور پھر لاکھوں روپے بھی کمائے ۔۔۔لوگوں کی جانوں سے بھی کھیلے ۔۔۔اور پھر مسیحائی کا ڈھونگ کرکے خود کو فادرٹریسا ٹائپ کی چیز بھی بنا کر پیش کرے ۔۔۔
گرمیوں میں سیلاب اور سردیوں میں برفباری ۔۔۔
یہ دو ایسے موسمی سختی والے حالات ہیں کہ ان کے متعلق پیشگی بھی کچھ نہ کچھ اطلاعات آ ہی جاتی ہیں ۔۔لیکن پھر بھی لوگوں کو انہی ایام میں ترغیب دی جاتی ہے کہ آئیں ۔۔۔اور لطف اندوز ہوں ۔۔۔
اصل میں تو یہ سب پیٹ کا دھندہ ہے ۔۔۔روزی روٹی کمانے کے ڈھنگ ہیں ۔۔۔ایک خاتون جو اسی کام سے منسلک ہیں وہ ایک بار بتا رہی تھیں کہ پنجاب سے جو ایک کوسٹر میں لیکر شمالی علاقہ جات جاتی ہوں تو وہ مجھے فی کوسٹر ایک لاکھ روپیہ بچتا ہے ۔۔۔اس سے آپ احباب اندازہ لگا لیں کہ یہ کام کتنا نفع بخش ہے ۔۔۔پھر کیسے یہ لوگ رک سکتے ہیں ۔۔۔
بارشوں اور برفباری میں کیونکر اپنا لاکھوں کا نقصان کرسکتے ہیں ۔۔۔۔
ایڈونچر تو یہ ہے کہ آپ خود کو حالات کے سامنے پیش کریں ۔۔۔لوگوں کو جنہیں ایسی صورتحال کا اندازہ ہی نہیں انہیں ترغیب دیکر لانے اور پھر پھنسانے کی کیا ضرورت ہے ۔۔۔
چند سال پہلے مری سے نتھیا گلی روڈ پر جب حادثہ ہوا تو میں بچوں کے ہمراہ وہاں موجود تھا ۔۔۔اس سال منور وادی میں ایک سیلابی ریلے سے بھی اللہ کریم نے حفاظت فرمائ ۔۔۔
مشکل ترین حالات خود جھیلے ہیں ۔۔
لیکن کبھی کسی کو غلط مشورہ نہیں دیا ۔۔۔غلط ترغیب نہیں دی ۔۔غلط راہنمائ نہیں کی ۔۔۔وجہ اس کی صرف یہ ہے کہ یہ میرا ذاتی شوق ہے کاروبار نہیں ۔۔۔
جب اس شوق سے میرا پیٹ منسلک ہو جائے گا تو پھر مجھے لوگوں کی گردنوں کی پرواہ بھی نہیں رہے گی ۔۔۔۔
ہمارے ایک استاد فرمایا کرتے تھے کہ منبر پر بیٹھا شخص اگر دین بتلانے کی قیمت وصول کرے گا ۔۔۔تو کبھی حق بیان نہیں کر پائے گا ۔۔۔حق وہ تب بیان کریگا جب محنت مزدوری کرکے کھائے گا اور منبر پر فی سبیل اللہ بیٹھے گا ۔۔۔
یہی مثال یہاں بھی صادق آتی ہے ۔۔۔جن لوگوں نے اس شعبے کو آندھی کمائ کا ذریعہ بنا لیا ہے وہ اب پکڑائی نہیں دیں گے ۔۔۔یہ اب عوام کا کام ہے کہ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں ۔۔۔۔
ایک بہت بڑا نام جسے میں ہمیشہ مسخرہ ہی کہتا ہوں ۔۔۔گذشتہ سال کشمیر کشمیر کشمیر کرنے لگا ۔۔۔تو ایک کشمیری دوست سے میں نے کہا کہ اب اس کی نظر کشمیر پر ہے یہ وہاں سے مال کمانا چاہتا ہے ۔۔۔کیونکہ پورا پاکستان نیلم جانے کی خواہش رکھتا ہے تو کشمیر کی محبت کا راگ الاپنا اب اس کی مجبوری بن چکا ہے ۔۔۔۔لیکن کشمیریوں کی بھی مجبوری ہے ایسے مسخروں کے ساتھ وڈیوز اور تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالتے ہیں اور پھر اسے باعث فخر بھی سمجھتے ہیں ۔۔۔
جس روز منور ویلی میں شدید سیلابی ریلا آیا اس سے اگلی صبح مہانڈری پل پر کھڑے صاحب فرما رہے تھے یہاں تو سب اچھا ہے ۔۔۔فورا سب یہاں پہنچیں ۔۔یہی دن ہیں یہاں آنے کے ۔۔۔جبکہ انتظامیہ پل پر کھڑی آگے جانے سے روک رہی تھی ۔۔۔معلوم پڑا کہ ان حضرت نے آگے کوئ ہوٹل ٹھیکہ پر لے رکھا ہے اور پیچھے سے ان کے کارندے گاڑیوں میں بھر کر لوگ ان کے حوالہ کرتے ہیں ۔۔جیسے موٹر وے پر مرغیوں کی گاڑیاں آپ نے دیکھی ہونگی ۔۔جنہوں نے جنگلے سے سر نکالے ہوتے ہیں ۔۔۔انہیں نہیں پتہ ہوتا آنیوالے چند گھنٹوں میں انہیں ذبح کردیا جائے گا ۔۔۔بالکل اسی طرح یہاں آنیوالے سیاحوں کو بھی نہیں پتہ ہوتا کہ وہ کس ٹوکے کے نیچے آنیوالے ہیں
ہمارے یہاں واہ کینٹ میں سکردو کے حسن بھائ ہوتے ہیں ۔۔موسی کا مصلی کی سینچری مار چکے ہیں ۔۔زبردست سیاح ،گائیڈ اور ٹریکر ہیں ۔۔۔ٹریکرز کو لیکر بھی جاتے ہیں ۔۔۔لیکن کیا ہے کہ اپنی ملازمت بھی کرتے ہیں ۔۔۔
اپنا شوق پورا کرتے ہیں ۔۔۔کسی کو گمراہ نہیں کرتے ۔
عشاق تو ان کا نام جانتے ہوں گے لیکن اکثریت کو معلوم بھی نہ ہوگا ۔۔۔
آج کے ان ڈیجیٹل مسخروں کے سامنے تو تارڑ صاحب بھی منہ چھپاتے پھرتے ہوں گے ۔۔۔
سیاحت کو کاروبار ضرور بنائیں ۔۔۔لیکن پھر لوگوں کی جانوں سے تو مت کھیلیں ۔۔۔
اگر ایک چیز آپ کو ترقی کی طرف لیجا رہی ہے تو پھر ایمانداری کے ساتھ اس کا حق بھی ادا کریں ۔۔
آپ شوقین ہیں تو اپنی جان کا رسک لیں لوگوں کو بلا کر برف کے طوفانوں اور سیلابی ریلوں میں نہ پھنسائیں ۔۔۔
شہری ہنگاموں اور مسائل میں پھنسے لوگ ۔۔۔اپ کی ترغیب پر دوڑے چلے آتے ہیں ۔۔۔
آپ سے پہلے بھی ان علاقوں سے ان راہوں سے بہت سے لوگ گزر چکے ہیں ۔۔۔بہت سے لوگوں نے یہ برفباری اور یہ علاقے پہلے بھی دیکھے ہیں ۔۔۔وہ بھی یہاں مست ہوکر ناچے ہوں گے ۔۔۔
لیکن انہوں نے اپنا ناچ بیچا نہیں ۔۔۔انہوں نے اپنی مستی کی قیمت وصول نہیں کی ۔۔۔
فیصلہ تو اب عوام نے کرنا ہے کہ انہیں ان موت کے سوداگروں کی ترغیب پر چلنا ہے ۔۔۔۔ان سیاحتی مسخروں کی تقلید کرنی ہے یاکہ باعزت اور پروقار طریقے سے دوچار دن فطرت کے قریب گزارنے ہیں ۔۔۔
آج کے دن بھی آپ دیکھیں گے یوٹیوب ،فیس بک اور تک ٹاک پر آپ کو سیاحت اور سب اچھا ہے کا چورن بیچتے نمونے ضرور نظر آئیں گے ۔۔۔فورا آجائیں ۔۔سب اچھا ہے ۔۔۔ناران کھلا ہے ۔۔۔ہوٹل سستے ہیں ۔۔۔دو دن دھوپ نکلے گی تو بابو سر ٹاپ کھل جائے گا ۔۔۔
انتظامیہ بھی ان مسخروں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی ہے ۔۔۔
یکم نومبر سے بابو سر ٹاپ کو بند کردیا چاہیے ۔۔۔یہاں کونسی بہت بڑی ابادی ہے کاغان کے بعد ۔۔۔۔
کاغان سے آگے پورا علاقہ بابو سر گاؤں تک ۔۔۔صرف چھ ماہ کے لیے آباد ہوتا ہے ۔۔۔صدیوں سے یہ لوگ گرمیوں میں ان علاقوں میں آباد ہوتے اور پھر سردیوں میں گرم علاقوں میں اپنے کام کاج کے لیے نکل جاتے ۔۔۔
آج بھی ان علاقوں میں بیٹھے لوگ سب دیکھ لیں گرم علاقوں سے ہیں ۔۔۔کل رات بیسر مون ریسٹورنٹ سے جتنے لوگوں کی وڈیوز آرہی تھیں وہ سب پنجاب کے گرم علاقوں سے تھے اور یہاں صرف لوگوں کو پھنسانے بیٹھے تھے ۔۔۔
انتظامیہ بند کرے یہ راستہ ۔۔۔
یا پھر اتنا بندوبست کرے کہ شدید سے شدید برف میں بھی یہ بند نہ ہو ۔۔۔
میں گزشتہ پینتیس سال سے خود سینکڑوں بار یہاں گیا ہوں ۔۔دس سال قبل تک صورتحال یہ تھی کہ ناران سے آگے اس موسم میں جانے کی اجازت نہیں ہوا کرتی تھی ۔۔۔
انتظامیہ خود ہوش کے ناخن لے ۔۔۔نومبر کے پہلے ہفتے میں برفباری شروع ہونے سے پہلے یہ علاقے خالی کروا لے ۔۔۔برف کب پڑے گی بارش کب ہوگی ۔۔۔یہ جاننا اب کوئ بہت بڑی راکٹ سائنس نہیں ہے ۔۔۔
لیکن سب کچھ انتظامیہ پر ڈالنا بھی درست نہیں ۔۔۔
خدارا ہوش کے ناخن لیں ۔۔۔

تحریر : نوید اشرف خان ، واہ کینٹ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں