کالم: تپش -معاشرتی زوال کی علامات اور حقائق ; تحریر: شمس الاسلام شمس

105

جب سلطنتیں شکست و ریخت کا شکار اور قومیں انحطاط کی دلدل میں اتر جاتی ہیں تو وہاں ایک عجیب تماشا برپا ہوتا ہے۔ معاشرے کی رگوں میں سچائی، دیانت اور مشقت کی روانی تھم جاتی ہے اور اس کی جگہ مکر، ریاکاری اور فریب کا زہر دوڑنے لگتا ہے۔ ایسے حالات میں جگہ جگہ جعلی عامل، جھوٹے صوفی، بددیانت قاری، خوشامدی سیاست دان، موقع پرست لیڈر، افواہیں پھیلانے والے تاجر اور فتویٰ فروش علما چھا جاتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ ہر زوال پذیر قوم کی مشترکہ کہانی ہے۔ سوال یہ ہے: کیا یہ آج کا پاکستان نہیں؟

ریاست جب اپنے شہریوں کو روزگار اور مواقع فراہم کرنے میں ناکام رہتی ہے تو عوام تقدیر بدلنے کے شارٹ کٹ تلاش کرتے ہیں۔ آج ہر شہر اور محلے میں ’’جادو کا توڑ‘‘، ’’کاروباری برکت‘‘، ’’محبت کا وظیفہ‘‘ اور ’’شادی کا تعویذ‘‘ بیچا جا رہا ہے۔ لوگ اپنی جیبیں ان جعلی نجومیوں کے ہاتھوں خالی کرتے ہیں مگر تعلیم اور ہنر پر سرمایہ لگانے سے گھبراتے ہیں۔ چین کا کسان اپنی زمین میں پسینہ بہاتا ہے اور دنیا بھر کو اناج بیچتا ہے (FAO Report, 2023)، جبکہ ہم تعویذ کے پیچھے بھاگتے ہیں۔

نظام جب کمزور ہو جائے تو بھکاری ذہنیت غالب آتی ہے۔ ہر طرف “مفت آٹا”، “مفت بجلی” اور “مفت راشن” کے مطالبات گونجتے ہیں۔ محنت کے بجائے مفت خوری پر فخر کیا جانے لگتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کی برآمدات آج بھارت اور ویتنام کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہیں (World Bank, Pakistan Economic Update 2024)۔

قائدین جب موقع پرستی میں ڈوب جائیں تو ریاستیں زمین بوس ہو جاتی ہیں۔ آج سیاست دان مسائل حل کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہیں۔ جلسے اور نعرے بلند ہیں لیکن اسکول اور اسپتال ویران۔ یہی رویہ کاروبار میں بھی ہے، جہاں پروڈکٹ بہتر کرنے کے بجائے حریف کو بدنام کرنے پر زور ہے۔ یہی سبب ہے کہ دنیا کے بہترین 100 برانڈز میں کوئی پاکستانی کمپنی شامل نہیں (Interbrand Best Global Brands Report 2023)۔

کمزور ریاست میں افواہیں معیشت کو چاٹ جاتی ہیں۔ کسی نے سوشل میڈیا پر لکھ دیا ’’ڈالر بڑھ گیا‘‘ تو اگلے دن مارکیٹ سے سامان غائب۔ کسی نے کہا ’’گھی نایاب ہونے والا ہے‘‘ تو لوگ قطاروں میں لگ گئے۔ ترقی یافتہ دنیا میں کسان اپنی فصل کا فیصلہ تحقیقی رپورٹس پڑھ کر کرتا ہے، ہمارے ہاں کسان افواہوں کے رحم و کرم پر۔ اس کا نتیجہ فصلوں کی بربادی اور زرعی پیداوار کی کمی ہے (Pakistan Economic Survey 2023-24)۔

ابنِ خلدون نے اپنی کتاب المقدمہ میں فتویٰ فروش علما کا ذکر کیا تھا۔ آج یہ ہمارے سامنے زندہ حقیقت ہے۔ مساجد اور منبر کردار سازی کے بجائے نفرت، سیاست اور فرقہ واریت کے اڈے بن گئے ہیں۔ قرآن بار بار محنت، انصاف اور سچائی کی تعلیم دیتا ہے (سورۃ النحل: 90)، لیکن ہم نے دین کو دنیا کمانے کا وسیلہ بنا لیا ہے۔

پاکستان میں جامعات کی تعداد تو بڑھ رہی ہے لیکن علم کی کمی واضح ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گریجویشن مکمل کرنے والے 60 فیصد نوجوان بنیادی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے محروم ہیں (World Bank: Pakistan Human Capital Review 2023)۔ ہم انجینئر پیدا کر رہے ہیں جو عملی کام کے قابل نہیں، اور ایم بی اے تیار کر رہے ہیں جنہیں کاروباری حکمت عملی کی سمجھ نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان ہاتھ پر ہاتھ دھرے نوکری کے انتظار میں بیٹھے ہیں، جبکہ ویتنام اور بھارت کے نوجوان ای-کامرس پلیٹ فارمز پر کامیاب بزنس کر رہے ہیں۔

صحت کی صورتحال بھی خطرناک ہے۔ پاکستان میں ہر دوسرا شخص بلڈ پریشر یا شوگر کا مریض ہے (Pakistan Health Demographic Survey, 2022)۔ بیمار مزدور ہنر کیسے دکھائے گا؟ بیمار شاگرد محنت کیسے کرے گا؟ جب صحت مند معاشرہ نہ ہو تو مضبوط معیشت کیسے ہوگی؟ ترقی یافتہ ملکوں نے جنگوں کے بعد تعلیم اور صحت پر سرمایہ کاری کی، ہم نے سب سے کم۔ اسی لیے اسپتالوں کے باہر مریض دم توڑتے ہیں اور صاحبِ حیثیت لوگ علاج کے لیے بیرون ملک بھاگتے ہیں۔

ہمارے سماج میں محنت کرنے والا کسان یا مستری پسینہ بہاتا ہے مگر عزت سے محروم ہے، جبکہ خوشامدی، نعرے باز اور موقع پرست عزت اور دولت کے مالک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان ہنر سیکھنے کو عیب اور شارٹ کٹ کو کمال سمجھتے ہیں۔ اقبال نے کہا تھا:
“محنت کشوں کی دنیا میں ہے قابلِ عزت وہی انسان جو اپنے بازو کے زور سے رزق حلال کماتا ہے” (اقبال، ضربِ کلیم)۔

پاکستان میں طبقاتی تقسیم انتہائی خطرناک ہو چکی ہے۔ امیر طبقے کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کرتے ہیں، متوسط طبقہ نجی یا اردو میڈیم اسکولوں میں، اور غریب کے بچے چائے خانوں اور ورکشاپوں پر برتن دھوتے ہیں۔ یہ خلیج کسی بھی قوم کو توڑنے کے لیے کافی ہے (UNDP Report on Inequality in Pakistan, 2022)۔

پاکستان میں حقیقی رہنما نہیں بلکہ “مالک” ہیں۔ سیاسی جماعتیں خاندانوں کی جاگیر ہیں، بیوروکریسی طاقت کا تخت ہے اور خدمت کے بجائے ذاتی مفاد کا اڈہ۔ جب قیادت خدمت کے بجائے مفاد پرستی میں ڈوب جائے تو قوم اندھی گلیوں میں بھٹکتی ہے۔

ابنِ خلدون کا قول آج ہمارے سامنے آئینہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی تباہی کو دیکھ کر افسوس کرتے رہیں گے یا اپنی شکل بدلنے کا فیصلہ کریں گے؟ یاد رکھیں: قومیں تعویذ، جھوٹی تسلیوں اور افواہوں سے نہیں بلکہ پسینے، محنت اور سچائی سے بنتی ہیں۔ اگر ہم نے پسینہ نہ بہایا تو آنے والی نسلیں ہمیں بددعائیں دیں گی۔

مراجع و حوالہ جات

1. ابنِ خلدون، المقدمہ

2. FAO (Food and Agriculture Organization), World Agriculture Report 2023

3. World Bank, Pakistan Economic Update 2024

4. Interbrand, Best Global Brands Report 2023

5. Pakistan Economic Survey 2023-24 (Chapter: Agriculture)

6. The Holy Quran, Surah An-Nahl: 90

7. World Bank, Pakistan Human Capital Review 2023

8. Pakistan Demographic and Health Survey (PDHS) 2022

9. Allama Iqbal, Zarb-e-Kalim

10. UNDP, Pakistan National Human Development Report on Inequality, 2022

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں