جنسی تعلیم یا جنسی تحریک؟ مغربی تربیتی ماڈل کا جائزہ ۔۔۔۔۔ وحید مراد
کچھ روز قبل جب سیکس ایجوکیشن کے موضوع پر عفت عمر کی ڈیبیٹ کا جائزہ لیا تو کئی روشن خیال دوستوں نے یہ اعتراض اٹھایا کہ مغرب میں اس تعلیم کا مقصد بے راہ روی نہیں بلکہ معلومات، شعور اور تحفظ فراہم کرنا ہے۔ ان کے مطابق وہاں بچوں کو جنسی آزادی نہیں بلکہ بلوغت کی سمجھ، رضامندی، ذاتی حدود اور جنسی تشدد سے بچاؤ کے اصول سکھائے جاتے ہیں۔ یہ تعلیم حیوانی لذت نہیں بلکہ ذمہ داری اور احترام انسانیت کی تربیت ہے۔ مغرب نے اخلاق کو مذہب سے الگ کیا ہے مگر ختم نہیں کیا ۔ انصاف، مساوات اور احترامِ انسانیت اب بھی ان کی تعلیم کا حصہ ہیں۔
جب کہا جاتا ہے کہ مذہب کے بغیر بھی انسان اچھا ہو سکتا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اچھائی کا معیار کیا ہے؟ اگر جھوٹ بول کر خوش رکھنا اخلاقی ہے تو سچ بول کر ناراضی مول لینا غیر اخلاقی کیوں؟ اگر ہم جنس پرستی، شراب نوشی یا ناجائز تعلقات کسی معاشرے میں برائی نہیں سمجھے جاتے تو وہاں اخلاق کا مفہوم اورسرچشمہ کیا ہے؟ اگر اخلاق محض انسانی عقل یا سماجی معاہدے سے جنم لیتا ہے تو خیر و شر دونوں نسبتی اور غیر قطعی بن جاتے ہیں۔ جو کل بُرا تھا اگروہ آج اچھا ہو سکتا ہے تو یہی اخلاقی بحران کی اصل جڑ ہے۔
محرمات (خاص طور پر نابالغ) کی عزت و عفت کی حفاظت کا ذمہ محرم مردوں اوروالدین پر رکھا گیا ہے ۔ یہی اخلاقی نظام خاندان کے تقدس اور انسانی رشتوں کی سرحدیں متعین کرتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی اصول کی جھلک مغرب میں بھی کسی نہ کسی سطح پر موجود ہے جہاں بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ ہر پرائیویٹ بات والدین کو بتائیں اور والدین کے سوا کوئی ان کے جسم کو نہیں چھو سکتا۔ سوال یہ ہے کہ والدین کو یہ اختیار کس نے دیا؟ محض سماجی معاہدے نے یا کسی ازلی اخلاقی اصول نے؟ ظاہر ہے یہ حق عقیدے نے دیا ہے۔
وہ عقیدہ جو ازل سے یہ طے کرتا ہے کہ کون سا مرد یا عورت دوسرے کے لیے ہمیشہ کے لیے محرم ہے اور کون نہیں۔ محرم اور نامحرم کا یہ مستقل ضابطہ کسی عارضی سماجی معاہدے سے طے نہیں ہو سکتا۔ اگر معاشرہ محض وقتی رجحانات یا انسانی رضامندی پر اخلاق کی بنیاد رکھے تو باپ بیٹی ، ماں بیٹا یا بھائی بہن کے تعلق پر بھی اعتراض اٹھ سکتا ہے ۔ یہی وہ نقطہ ہے جہاں مذہب اخلاق کو عارضی دائرے سے نکال کر ایک ابدی اور مقدس قانون بنا دیتا ہے۔
افلاطون، ارسطو اور کانٹ جیسے فلسفیوں نے اخلاق کو عقل کی بنیاد پر سمجھانے کی کوشش کی مگر ان کے نظریے عارضی ثابت ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں آنے والے بعض مفکرین یہ کہہ کر اخلاق کی حقیقت سے ہی منکر ہو گئے کہ (There are no moral facts at all) یعنی اخلاق محض کمزوروں کی تسلی ہے۔ جب خیر و شر کی بنیاد وحی کے بجائے انسان کی خواہش پر رکھی جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ہم جنس پرستی، آزاد تعلقات اور جنس کی تبدیلی جیسے اعمال اخلاقی کہلانے لگتے ہیں۔
انسانی حقوق کا فلسفہ بھی ابتدا میں مذہبی روایت سے نکلا مگر جب اسے وحی سے کاٹ کر محض مادی بنیادوں پر قائم کیا گیا تو وہ صرف خواہش اور آزادی کا فلسفہ رہ گیا۔ اسی سوچ کے تحت آج جنسی رجحان (Sex Orientation) کو بھی انسانی حق قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دراصل حقوق کی توسیع نہیں بلکہ ان کی مسخ شدہ شکل ہے، کیونکہ یہ حق کو ذمہ داری سے جدا کرتی ہے۔
ہم جنس پرستی کو کسی سائنسی تحقیق سے نہیں بلکہ سیاسی فیصلے سے جائز قرار دیا گیا۔ 1973 میں امریکی نفسیاتی ایسوسی ایشن (APA) نے سیاسی دباؤ کے تحت اسے بیماریوں کی فہرست سے خارج کیا، حالانکہ ممتاز ماہرین مثلاً ڈاکٹر پال مک ہیو (Dr. Paul McHugh, Johns Hopkins University) نے واضح طور پر ثابت کیا کہ یہ فطری نہیں بلکہ نفسیاتی و سماجی عوامل کا نتیجہ ہے۔
اگر مذہب کے بغیر اخلاق قائم رہ سکتا تو مغربی معاشرے سب سے زیادہ پر سکون اور مطمئن ہوتے مگر انکے اپنے اعداد و شمار اس کے برعکس ہیں۔ خاندانی نظام کا زوال، تنہائی، ڈپریشن اور خودکشی کی بلند شرح یہ بتاتی ہے کہ جب اخلاق کا سرچشمہ وحی سے کٹ جائے تو خیر کا احساس بھی مدھم پڑ جاتا ہے۔ وحی کی روشنی میں اخلاق مطلق رہتا ہے مگر جب اسے انسانی عقل کے حوالے کر دیا جائے تو اچھائی کا معیار بدلنے لگتا ہے۔ مذہبی اخلاق انسان کو نیکی پر آمادہ کرنے کے ساتھ ساتھ نیت، خلوص اور ضمیر کی اصلاح کرتا ہے اور یہ بصیرت منطق سے نہیں، ایمان سے پیدا ہوتی ہے۔
یہ دعویٰ نہیں کیا جا رہا کہ مشرق مکمل طور پر اخلاقی اور مغرب سراسر بے اخلاق ہے مگر فرق یہ ہے کہ مغرب کا اخلاق محض سماجی معاہدہ ہے جس میں رضا کی اہمیت تو ہے مگرضمیر کی نہیں۔ مذہبی اخلاق بندگی سے جنم لیتا ہے جو انسان کو ظاہر و باطن دونوں سطحوں پر پاکیزگی عطا کرتا ہے۔
اب آیئے سیکس ایجوکیشن کے فکری ڈھانچے پر نظر ڈالیں۔یہ اب محض معلومات نہیں بلکہ ایک تہذیبی فلسفہ بن چکا ہے جس کی بنیاد یہ ہے کہ انسان کی جنسی خواہش فطری ہے اور اس پر کوئی مذہبی یا اخلاقی قید نہیں ہونی چاہیے۔ صرف رضامندی (Consent) ہو تو سب کچھ جائز ہے۔مغرب نے اخلاق کو مذہب سے کاٹ کر قانون اور نفسیات تک محدود کر دیا اور یہی وہ مقام ہے جہاں آزادی نے اخلاق کو بدل ڈالا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس سیکس ایجوکیشن کو تحفظ کا ذریعہ کہا جاتا ہے وہ خود ان جرائم کی جڑ بن گئی۔ اگر یہ تعلیم واقعی بچوں کو جنسی جرائم سے بچاتی تو مغربی معاشروں میں ان کی شرح سب سے زیادہ کیوں ہے؟امریکہ کے ادارے (CDC 2023) کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک نوجوان کسی نہ کسی جنسی بیماری میں مبتلا ہے اور برطانیہ کی رپورٹ (NHS) کے مطابق چالیس فیصد کم عمر لڑکیاں جنسی دباؤ یا استحصال کا تجربہ کر چکی ہیں۔یعنی آگاہی نے حفاظت نہیں بلکہ بے باکی (Boldness) کو عام کیا۔
معروف ماہرِ تعلیم نیل پوسٹ مین (Neil Postman) نے کہا کہ(Sex education has prematurely sexualized the young and desensitized the moral fabric of society) یعنی سیکس ایجوکیشن نے بچوں کو قبل از وقت بالغ کر دیا اور ان کے اندر سے حیا و اخلاقی حساسیت ختم کر دی۔اسی کے ساتھ جینڈر فلوڈیٹی (Gender Fluidity) کا نظریہ جس میں پانچ سال کے بچے سے پوچھا جاتا ہے کہ (Do you feel like a boy or a girl today)، تعلیم نہیں بلکہ ذہنی خلفشار ہے۔ اسی سوچ نے والدین کے باہمی اعتماد کو ختم کیا اور خاندان کو ایک عارضی معاہدہ (Temporary Contract) میں بدل دیا۔
مغرب کے اپنے اعداد و شمار اس ماڈل کی ناکامی کا اعلان کر رہے ہیں۔( CDC 2023 ) کے مطابق، امریکہ میں اٹھارہ سال سے پہلے جنسی تعلق قائم کرنے والے نوجوانوں کی شرح چون فیصد ہے۔(Pew Research Center) کے مطابق، یورپ کے کئی ممالک میں ساٹھ سے اسی فیصد بچے غیر ازدواجی تعلقات (Cohabitation) سے پیدا ہوتے ہیں اور معاشرہ اسے معمول سمجھتا ہے۔ (Guttmacher Institute 2022) کے مطابق، صرف امریکہ میں ہر سال چھ لاکھ ٹین ایج اسقاطِ حمل (Teen Abortions) ہوتے ہیں۔ اگر سیکس ایجوکیشن واقعی ضبطِ نفس (Self-Control) سکھاتی تو یہ شرحیں کبھی نہ بڑھتیں۔
یونیسکو (UNESCO) اور عالمی ادارہ صحت (WHO) کی (2018 CSE Guidelines) کے مطابق، بچوں کی جنسی لذت (Sexual Pleasure)، رجحان (Orientation) اور خود لذتی (Masturbation) کے بارے میں مثبت رویہ (Positive Understanding) اپنایا جانا چاہیے۔یعنی مقصد صرف معلومات نہیں بلکہ جنسی رویوں کی قبولیت (Normalization) سکھانا ہے۔
یہ تعلیم بچوں کو ذمہ دار نہیں بناتی بلکہ ان کے اندر جنسی تجسس (Curiosity) اور تجربے کی خواہش کو جائز قرار دیتی ہے۔ یہ نصاب والدین کے دینی و اخلاقی اختیار کو بھی چیلنج کرتا ہے۔ کینیڈا، سویڈن اور جرمنی جیسے ممالک میں اگر والدین اس تعلیم سے انکار کریں تو اسکول کی جانب سے قانونی کارروائی (Legal Action) ہو سکتی ہے۔
سیکس ایجوکیشن کے نصاب میں کنڈوم کے استعمال، حمل سے بچاؤ اور محفوظ جنسی تعلقات (Safe Sex) پر زور دیا جاتا ہے۔اس میں یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ جنسی عمل کرو، بس احتیاط رکھو۔ یعنی عمل خود غلط نہیں، بے احتیاطی غلط ہے۔یہی وہ فکری مغالطہ ہے جس نے نوجوان نسل کے ذہن سے شرم و حیا (Modesty) کا شعور مٹا دیا ہے۔
سابق برطانوی وزیر تعلیم (Michael Gove 2014) نے خود اعتراف کیا کہ(Sex education in its current form has failed to reduce promiscuity or teenage pregnancies) یعنی سیکس ایجوکیشن اپنی موجودہ شکل میں نہ بے راہ روی کم کر سکی، نہ نوعمری کی حاملگی (pregnancy)۔ اسی طرح (The Lancet 2020) کی تحقیق کے مطابق سیکس ایجوکیشن کے بعد جنسی عمل کی ابتدا کی عمر پہلے سے بھی کم ہو گئی۔
یہ تمام حقائق واضح کرتے ہیں کہ سیکس ایجوکیشن تحفظ کے بجائے جنسی تجربات کو معمول بنانے کی ذہن سازی کرتی ہے۔یہ شعور (Awareness) نہیں دیتی بلکہ خواہش (Desire) کو نظریہ بنا دیتی ہے۔
اسلام کا ماڈل ،سیکس ایجوکیشن نہیں بلکہ تربیتِ عفت و طہارت ہے۔اسلامی تربیت عمر، ذہنی سطح اور اخلاقی حساسیت کے مطابق ہے۔بچپن میں شرم و حیا اور لباس کے آداب، بڑے ہونے پر طہارت اور جسمانی تبدیلیوں کی فہم، نوجوانی میں ضبطِ نفس، نیت کی پاکیزگی اور ازدواجی ذمہ داری کا شعور اور بالغوں کے لیے ازدواجی زندگی و طہارت کے عنوان سے رہنمائی۔ یہ تربیت محض معلومات نہیں دیتی بلکہ کردار سازی کرتی ہے۔اساتذہ اور والدین کے لیے خود حیا، توازن اور دینی بصیرت لازم ہے کیونکہ علم، اخلاق اور عبادت ایک ہی زنجیر کے حلقے ہیں۔
روایتی تہذیب میں تربیت صرف فرد کی نہیں بلکہ معاشرے کی ذمہ داری ہے۔جب مغرب نے تربیت کو مذہب اور خاندان سے کاٹ کر فرد پر ڈال دیا تو نتیجہ یہ نکلا کہ ہر شخص اپنی مرضی کی تربیت دے رہا ہے ۔ کوئی آزادی کے نام پر خواہشات کی تعلیم دیتا ہے، کوئی خود شناسی کے نام پر نفس کی پرورش کرتا ہے۔ یہی وہ فکری انفرادیت ہے جس نے مغربی معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر دیا۔
یہ کہنا مقصد نہیں کہ مشرقی معاشرے مکمل طور پر مثالی ہیں مگر یہاں اب بھی کم ازکم ایمان اور حیا کا تصور زندہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مغرب کی اندھی تقلید کے بجائے اپنے دینی و تہذیبی ماڈل کو فروغ دیں ۔ایسا ماڈل جو تحفظ کے ساتھ حیا، وقار اور روحانی بلندی پیدا کرےاور جدید علم و آگہی سے بھی ہم آہنگ ہو۔