ایبٹ آباد : 2005 میں آنے والے ہولناک زلزلے کو 20 سال گزرنے کے باوجود ایبٹ آباد کے متاثرہ تعلیمی ادارے اور صحت کے مراکز مکمل طور پر تعمیر نہ ہو سکے، جس کے باعث ضلع کے بالائی علاقوں بشمول گلیات، باگن، بکوٹ اور شہر کے مختلف علاقوں میں تباہ شدہ سکولوں اور بی ایچ یوز کی عمارتوں کی حالت اب بھی تشویشناک ہے۔
محکمہ صحت کے مطابق زلزلے میں 8 بی ایچ یوز ناقابل استعمال ہو گئے تھے جن میں سے صرف دو کی تعمیر مکمل ہوئی ہے۔ دیگر بی ایچ یوز جیسے پٹن، سلول بانڈی، کاکول، مولیا اور پلک کی عمارتوں کی تعمیر کا کام محض 30 سے 40 فیصد مکمل ہے۔ بی ایچ یو ملکوٹ کو مکمل گرا دیا گیا تھا مگر اب تک اس کی تعمیر شروع نہیں ہوئی۔
اسی طرح محکمہ تعلیم خواتین کے مطابق ضلع کے مختلف علاقوں میں 35 پرائمری، مڈل اور ہائی سکول متاثر ہوئے جن میں زیادہ تعداد پرائمری سکولوں کی ہے۔ دو سکول مکمل طور پر تباہ ہوئے مگر ان کی تعمیراتی کارروائیاں تاحال ادھوری ہیں، جس کی وجہ سے خاص طور پر بچیوں اور طالبات کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔ ایبٹ آباد شہر کے دو مردانہ ہائی سکول، میرپور اور دہمتوڑ، بھی حکومت کی عدم توجہ اور کارکردگی کی مثال بن چکے ہیں۔
دیہی علاقوں جیسے ہرنو، پٹن، سیالکوٹ اور دیگر مقامات پر بھی متاثرہ سکولوں کی تعمیر مکمل نہیں ہو سکی۔ زلزلے کے بعد عالمی امداد کے ذریعے پاکستان کو امداد فراہم کی گئی تھی اور ایرا اور پیرا کو متاثرہ عمارتوں کی تعمیر کی ذمہ داری دی گئی تھی، لیکن ان کے منصوبے تاحال مکمل نہیں ہو سکے۔ بعد ازاں خیبر پختونخوا حکومت نے ان اداروں کو ختم کر دیا۔
شہریوں نے حکومت کی طرف سے صحت اور تعلیم کے بنیادی سہولیات کو یقینی نہ بنانے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور مرکزی و صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ادھورے منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کیا جائے تاکہ زلزلہ متاثرہ علاقوں کے عوام کو مناسب سہولتیں فراہم کی جا سکیں۔محکمہ تعلیم زنانہ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ ضلع میں متاثرہ 35 سکولز کی رپورٹ طلب کی گئی ہے تاکہ ان کی مکمل صورتحال کا جائزہ لیا جا سکے اور تعمیراتی کام کو تیز کیا جا سکے۔