والدین اور اولاد کی تربیت کا بحران : مغربی نظریات، اقدار اور ماڈلز کا تنقیدی جائزہ

12

والدین اور اولاد کی تربیت کا بحران : مغربی نظریات، اقدار اور ماڈلز کا تنقیدی جائزہ (2) ۔۔۔۔وحید مراد

اگرچہ عفت عمر صاحبہ کے پروگرام “دی گرینڈ ڈیبیٹ” میں والدین کے رویوں، بچوں کے اعتماد اور گھریلو تربیت سے متعلق کئی مثبت اور قابلِ عمل نکات سامنے آئے لیکن چند تصورات ایسے بھی پیش کیے گئے جو فکری، اخلاقی اور تہذیبی اعتبار سے نہ صرف متنازع ہیں بلکہ مغربی فکری سانچوں کی غیر تنقیدی تقلید کا مظہر بھی ہیں۔

یوں یہ مذاکرہ محض تربیتِ اولاد اور والدین کے عملی پہلوؤں تک محدود نہیں رہا بلکہ اس میں ایک مخصوص تہذیبی نظریہ بھی پوشیدہ ہے جو بظاہر اصلاحِ تربیت کی بات کرتے ہوئے دراصل مغربی فکر کو ہمارے معاشرتی سانچے میں منتقل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔یہیں سے سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا مرد و عورت کی مساوات کو اُسی زاویے سے سمجھنا درست ہے جس طرح مغربی صنفی نظریات اسے بیان کرتے ہیں؟کیا “سیکس ایجوکیشن” صرف جسمانی آگاہی تک محدود ہے یا یہ ایک فکری مداخلت بھی ہے جو حیا، اخلاق اور فطرت کے دائرے کو بدل دیتی ہے؟کیا بچے کی شناخت محض نفسیاتی و سماجی عوامل سے بنتی ہے یا اس کی جڑیں اخلاقی و روحانی شعور میں بھی پیوست ہیں؟

پوری گفتگو میں مغربی سماجی و تعلیمی نظریات کو اس طرح پیش کیا گیا گویا وہ عالمی سچائیاں ہوں حالانکہ ان کا پس منظر ایک مخصوص تہذیب اور معاشرت سے جڑا ہوا ہے۔ افسوس کہ ان تھیوریز کو ہمارے تہذیبی تناظر میں پرکھنے یا ان پر تنقیدی نظر ڈالنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آئی۔ یہ رویہ دراصل رٹا کلچر کی ایک علامت ہے جہاں ذہن تجزیے کے بجائے تقلید پر اکتفا کرتا ہے۔ تنقید و تحقیق کی مشقت سے گریز، فکری کاہلی کی وہ بیماری ہے جس نے ہمارے ماہرین تعلیم و نفسیات کو محض مغربی نظریات کا مفسر بنا دیا ہے، اصل تخلیق کاریا ناقد نہیں۔ہمارے اکثر جدید ماہرین خواہ وہ سائیکالوجسٹ ہوں یا سوشیالوجسٹ علم کو اس کے تہذیبی سیاق سے جدا کر کے پیش کرتے ہیں۔ وہ مغربی فکری ماڈلز کو سائنس کا لبادہ اوڑھا کر ہمارے سماج پر نافذ کرنا چاہتے ہیں حالانکہ مغرب کا اخلاقی و خاندانی ڈھانچہ ہماری تہذیب کے بالکل برعکس ہے۔

مغرب میں فرد (Individual) کو محورِ کائنات مانا جاتا ہے، جب کہ ہمارے ہاں خاندان (Family) اور امت (Ummah) ، زندگی کے نظم کی اساس ہے۔ اس فرق کو نظرانداز کرنا تربیت کے پورے تصور کو الٹ دیتا ہے۔ جب تربیت کا محور فرد کی خواہش، آزادی اور خودمختاری بن جائے تو اجتماعی ذمہ داری، رشتوں کااحترام اور اخلاقی ضبط جیسی اقدار کمزور پڑ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی تربیتی ماڈلز نے بظاہر آزاد مگر درحقیقت تنہا اور خالی الذہن نسلیں پیدا کی ہیں۔

اس مذاکرے میں انسان کو زیادہ تر نفسیاتی اور حیوانی سطح پر سمجھا گیا ہے ۔ گویا انسان کی اصل قوت اور کمزوری محض جینیاتی، نفسیاتی یا سماجی عوامل کا نتیجہ ہے۔ مگر ہماری تہذیبی روایت میں انسان ایک روحانی و اخلاقی وجود ہے، جس کے اندر اللہ کی روح ودیعت ہے۔ جب گفتگو سے یہ پہلو غائب ہو جائے تو تربیت صرف ذاتی احساسات اور سہولت کا معاملہ بن کر رہ جاتی ہے نہ کہ اجتماعی اخلاقی و روحانی ارتقاء کا۔

جب ہم ہر غلطی کا ذمہ دار ماحول، والدین یا جینز کو ٹھہرا کر فرد کی نیت، ارادے اور اختیار سے صرفِ نظر کرتے ہیں تو یہ نقطۂ نظر دراصل اخلاقی فرار (Moral Escape) کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ ہماری تہذیبی فکر کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ “کوئی جان کسی دوسری کی خطا کا بوجھ نہیں اٹھائے گی” یعنی ہر انسان اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے۔ہماری تربیتی روایت فرد کو محض خود مختار (Autonomous) وجود کے طور پر نہیں بلکہ ایک اخلاقی و روحانی امانت دار کے طور پر دیکھتی ہے، جس کی آزادی خیر، عدل اور وقار کے تابع ہوتی ہے۔ چنانچہ تربیت کا مقصد صرف خود کو اظہار دینا نہیں بلکہ قابو میں رکھنا، سنوارنا اور مقصد سے ہم آہنگ کرناہے۔

بدقسمتی سے اس گفتگو میں تعلیم و تربیت کا مرکز صرف احساسات، خود اعتمادی اور دوستانہ تعلق کو قرار دیا گیا۔ یہ پہلو یقیناً اہم ہیں مگر تعلیم کا اصل جوہر تزکیہ نفس، ضبطِ نفس اور خیر و شر کی تمیز ہے جس پر گفتگو نہیں کی گئی ۔اسلامی تہذیب میں علم کا مقصد صرف قابلیت نہیں بلکہ کردارہے۔ یہی فرق مغربی اور اسلامی تصورِ تعلیم کے درمیان بنیادی لکیر کھینچتا ہے۔

اس مکالمے میں والدین اور بچوں کے تعلق کو محض جذباتی، دوستانہ یا اعتماد کے رشتے کے طور پر پیش کیا گیا حالانکہ ہماری روایت میں والدین کا رشتہ محبت اور ادب دونوں کا حسین امتزاج ہے جہاں شفقت کے ساتھ حدود (boundaries) بھی قائم رہتی ہیں۔ صرف “فری تعلق” کی تلقین بظاہر پرکشش لگتی ہے مگر آخرکار نظم و ضبط کے خاتمے کا باعث بنتی ہے جو تربیت کے عمل کو کمزور کر دیتی ہے۔

یہ درست ہے کہ والدین کو بچوں کی نسبت زیادہ تربیت کی ضرورت ہے مگر تربیت کا مفہوم محض نفسیاتی سمجھ بوجھ نہیں، بلکہ اپنی اقدار، ایمان اور ذمہ داریوں کا شعور بھی ہے۔ والدین کو یہ سیکھنا چاہیے کہ محبت دینے کے ساتھ بچوں کے اندر کردار، حیا اور ضبطِ نفس کی بنیاد کیسے رکھی جائے کیونکہ انہی اصولوں پر مہذب انسان پروان چڑھتے ہیں۔

پوری گفتگو میں مغربی نفسیاتی نظریات کی غیر تنقیدی تکرار نمایاں تھی۔خود اعتمادی (Self-esteem)، تائید کی طلب (Approval-seeking)، رد کیے جانے کا سامنا کرنے کی صلاحیت (Rejection handling)، انفرادی صلاحیت یا امکانِ نمو (Individual potential) جیسے تصورات یقیناً اپنی جگہ اہم ہیں لیکن جب انہیں وحی، اخلاق اور روحانیت سے الگ کر دیا جائے تو وہ انسان کو خود پسند اور بے سمت بنا دیتے ہیں۔ ہمارے فکری ورثے میں پاکیزگیِ نفس پر زور دیا گیا ہے”کامیاب ہوا وہ جس نے اپنے نفس کو پاک کیا اور ناکام ہوا وہ جس نے اسے آلودہ کیا”۔یعنی تربیت کا مرکز “میں” نہیں بلکہ فرد کی خدا کے سامنے جوابدہی ہے۔

اسی طرح عورت کو مظلوم اور مرد کو ظالم کے طور پر دکھاتے ہوئے اس رشتے کو یک طرفہ زاویے سے پیش کیا گیا ۔ یہ دراصل فیمینسٹ بیانیے کا عکس ہے۔ ہماری تہذیبی روایت میں نہ مرد فطری طور پر برتر ہے نہ عورت کمتر بلکہ دونوں کو تکریمِ انسانیت کے مساوی درجے پر رکھا گیا ہے۔ فرق صرف کردار، ذمہ داری اور دائرۂ عمل کا ہے اور یہی توازن گفتگو سے غائب رہا۔

مرد و عورت ایک دوسرے کو مکمل کرنے والے (complementary) وجود ہیں نہ کہ ایک دوسرے کے مدمقابل۔ یہ کہنا کہ “فطری طور پر دونوں انسان ہوتے ہیں، معاشرہ انہیں مرد اور عورت بنا دیتا ہے” ایک فکری مغالطہ ہے۔ فرق محض سماجی نہیں بلکہ حیاتیاتی، نفسیاتی اور روحانی حقیقت بھی رکھتا ہے۔ مساوات کا مطلب یکسانیت نہیں بلکہ عدل ہے یعنی ہر ایک کو اس کی فطرت اور ذمہ داری کے مطابق مقام دیا جائے۔

آج اگر لڑکیوں کو تعلیم اور خودمختاری مل رہی ہے تو یہ خوش آئند ہے مگر یہ خودمختاری وقار اور ذمہ داری کے توازن کے بغیر انتشار میں بدل سکتی ہے۔ اسی طرح لڑکوں اور لڑکیوں میں کوئی فرق نہ رکھنے کی بات بظاہر انصاف پر مبنی لگتی ہے لیکن جب برابری کا مطلب کرداری مساوات کے بجائے کرداری یکسانیت بن جائے تو یہ فطرت کے خلاف چلا جاتا ہے۔فطرت نے عورت اور مرد کو برابر نہیں بلکہ متوازن بنایا ہے ۔ ان کے کردار الگ ہیں مگر یہ ایک دوسرے کے لیے ضروری ہیں۔

فیمینزم نے اس فرق کو “امتیاز” سمجھ کر مٹانے کی کوشش کی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عورت کو ماں، بہن،بیٹی،بیوی اور مربی کے مقدس رشتے سے ہٹا کر محض صنفی کردار بنا دیا گیا۔ہمارے بعض ماہرین جب انہی نظریات کو بلا تنقید دہراتے ہیں تو وہ دراصل خاندانی نظام کی جڑوں کو کمزور کر رہے ہوتے ہیں۔ مساوات کا مطلب یہ نہیں کہ سب کردار ایک جیسے ہوں بلکہ یہ کہ ہر انسان اپنی فطری ذمہ داری کے دائرے میں وقار اور عزت پائے۔

مغربی مساوات کے فلسفے نے مرد و عورت، والدین و اولاد، استاد و شاگرد سب کو ایک سطح پر لا کھڑا کیا جس سے ادب، درجہ بندی اور اخلاقی نظم ٹوٹ گیا۔ اسلام میں عزت سب کے لیے ہےمگر کردار سب کے مختلف ہیں۔اگر ماں اور باپ دونوں صرف دوست بن جائیں تو بچہ رہنمائی کے فقدان کا شکار ہوتا ہے۔ تربیت کا تقاضا ہے کہ محبت اور نظم دونوں ساتھ چلیں ۔ شفقت بھی ہو اور حدود بھی قائم رہیں۔

یہ بات درست ہے کہ معاشرتی رویوں میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ مردوں کو سکھایا جانا چاہیے کہ عورت کو بھی ایسا وجود سمجھیں جس کے جذبات، خواب اور احترام ہیں۔ مگر اس تربیت کی بنیاد کسی صنف کی برتری یا کمتری نہیں بلکہ انسانی تکریم اور باہمی احترام ہونی چاہیے۔ہمیں لڑکوں کو صرف “رد کو قبول کرنا” نہیں سکھانا بلکہ یہ بھی سکھانا ہے کہ کسی کے انکار یا اختلاف میں بھی اخلاقی وقار کیسے قائم رکھا جائے۔

جدید تربیتی فلسفہ فرد کے جذباتی اظہار کو مقدس سمجھتا ہے جبکہ احساسات کی درستی بھی تربیت کا حصہ ہے۔ رد ہونا، ناکامی یا تناؤ زندگی کے لازمی تجربات ہیں۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ بچوں کو یہ شعور دیں کہ انکار کو انا کا مسئلہ نہ بنائیں بلکہ اسے زندگی کا حصہ سمجھیں۔ اپنے نفس کی پذیرائی (Self-acceptance) اسی وقت بامعنی ہے جب اس میں اخلاقی توازن شامل ہو نہ کہ ہر خواہش کو درست مان لیا جائے۔انسان کے اندر خوفِ خدا، احساسِ جوابدہی اور مقصدِ حیات نہ ہو تو تربیت خواہ کتنی ہی جدید کیوں نہ ہو وہ صرف نفس کی پالش ہے، روح کی اصلاح نہیں۔ اس گفتگو میں تعلیم و تربیت کو محض ذہنی و سماجی عمل کے طور پر پیش کیا گیاجبکہ اس کا اصل مقصد تہذیبِ نفس اور کردار سازی ہے۔اسی خلا نے ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں علم بڑھ رہا ہے مگر تہذیب کم ہو رہی ہے۔ (جاری ہے)

تیسری قسط: حیا ، علم اور فطرت : سیکس ایجوکیشن کا تہذیبی و تنقیدی جائزہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں