الگ پرواز یا تنہا سفر؟ مشتاق احمد خان کا نیا فیصلہ

17

الگ پرواز یا تنہا سفر؟
مشتاق احمد خان کا نیا فیصلہ

تحریر ۔آصف خان اوگی

جماعتِ اسلامی کے امیر حافظ محمد نعیم کی اعلیٰ ظرفی یقننآ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ مشتاق احمد خان کئی ہفتے قبل جماعت سے استعفیٰ دے چکے تھے، مگر اس کے باوجود نہ صرف جماعت اسلامی کے تمام قائدین بلکہ کارکنان نے بھی ان کی گرفتاری پر سب سے بلند آواز میں احتجاج کیا۔ حافظ نعیم نے خود وزیراعظم سے بات کی، وزارتِ خارجہ سے مسلسل رابطے میں رہے، اور جب مشتاق احمد خان کی رہائی اور وطن واپسی ہوئی تو جہاں پوری قوم خوشی سے جھوم اٹھی، وہیں جماعت اسلامی کے کارکنان کی خوشی سب سے نمایاں تھی۔

مشتاق احمد خان کی جدوجہد اپنی مثال آپ ہے، اور یقیناً تاریخ میں سنہری حروف میں لکھی جائے گی۔ مگر اس موقع پر یہ بات دہرانا ضروری ہے کہ الگ پرواز اختیار کرنا یا نیا گھونسلہ بنانے کی کوشش اکثر ہمارے سیاسی اکابرین کے لیے ناکامی کا سبب بنی ہے۔ بالخصوص نظریاتی سیاست کرنے والے رہنما ہر جگہ فٹ نہیں بیٹھ پاتے، کیونکہ نظریہ کسی جماعت کا محض حصہ نہیں بلکہ اس کی بنیاد ہوتا ہے۔

ذرا ماضی پر نظر ڈالیں—عمران خان کو چھوڑ کر الگ جماعت بنانے والے رہنماؤں کا انجام سب کے سامنے ہے۔ پرویز خٹک ہوں یا محمود خان، انجام ایک سا نکلا۔ مسلم لیگ (ن) میں بھی چودھری نثار علی خان، شاہد خاقان عباسی، سردار مہتاب احمد خان جیسے قدآور رہنما تھے، جن کے مشورے کے بغیر نواز شریف کوئی اہم فیصلہ نہیں کرتے تھے، لیکن جب راستے الگ ہوئے تو وہ گمنام راہوں کے مسافر بن گئے۔

جے یو آئی (ف) کی مثال لیجیے—مولانا گل نصیب خان اور شجاع الملک جب مولانا فضل الرحمان سے جدا ہوئے تو “خاص” سے “عام” ہو گئے۔ یہی حال اے این پی کے فرید طوفان کا ہوا جو پارٹی سے الگ ہو کر کبھی مسلم لیگ میں گئے، کبھی پیپلز پارٹی میں، مگر کہیں جگہ نہ بنا سکے۔ آخرکار وہ دوبارہ اسی در پر لوٹے جہاں سے رخصت ہوئے تھے۔اس طرح کے اور بھی کئی نام ہیں جو سیاسی افق سے اوجھل کی ہوچکے ہیں

ان مثالوں کا مقصد کسی کو کسی جماعت میں رہنے پر مجبور کرنا نہیں، بلکہ اس حقیقت کی جانب توجہ دلانا ہے کہ جذباتی فیصلے اکثر پچھتاوے کا سبب بنتے ہیں۔ آج اگر مشتاق احمد خان کا نام پاکستان کی سیاست میں عزت و وقار رکھتا ہے تو یہ ان کی اپنی محنت، اخلاص اور جدوجہد کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کی تربیت اور پلیٹ فارم کی دین بھی ہے۔

یہ حقیقت اپنی جگہ کہ جماعت اسلامی کا موجودہ سیاسی قدکاٹ فی الحال وفاق اور صوبائی اسمبلیوں میں عددی اعتبار سے تو بالکل نہ شمار ہے، اس کی وجہ بھی جماعت اسلامی کی 2008 کے عام انتخابات کے بائیکاٹ کی میرے نزدیک تاریخی غلطی تک جس نے پارلیمانی سیاست میں اس جماعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا،مگر اس کا فلاحی بازو الخدمت فاؤنڈیشن آج بھی پورے ملک میں خدمت کے محاذ پر سب سے آگے ہے۔ یہی اس جماعت کا اصل سرمایہ ہے۔

جہاں تک مشتاق احمد خان کا تعلق ہے، ان کی موجودہ مقبولیت غیر معمولی ہے۔ ممکن ہے مختلف سیاسی جماعتیں انہیں خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہوں، اور بظاہر ان کا جھکاؤ تحریک انصاف کی جانب محسوس بھی ہوتا ہے،انکی مانگ بھی اسوقت ہے لیکن ان کا مخصوص اندازِ سیاست شاید کسی جماعت کے دائرے میں مکمل طور پر فٹ نہ بیٹھے۔ ان کی طبیعت میں جو انفرادیت اور استقلال ہے، وہ انہیں آزاد پرواز کی جانب مائل کر سکتی ہے۔

البتہ سوال یہ ہے کہ کیا تنہا پرواز اُن کے مشن کو تقویت دے سکے گی؟ کیونکہ ہمارے سیاسی معاشرے میں نظریاتی سچائی کے ساتھ ساتھ کسی بڑے نام یا جماعت کے سابقے لاحقے بھی کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے ہیں۔

ہماری دلی خواہش ہے کہ مشتاق احمد خان کا نام ہمیشہ بلند رہے، ان کی جدوجہد بارآور ہو، اور وہ جس نئے سفر پر نکلے ہیں، اس کے نتائج نہ صرف ان کے لیے بلکہ پورے پاکستان کے لیے باعثِ فخر ثابت ہوں۔ اللہ کرے کہ ان کا اخلاص اور عزم وہ چراغ ثابت ہو جو قوم کے راستے روشن کرے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں