حکومت سختی سے اس احتجاج کو کچلنے کے بجائے کوئی درمیانہ راستہ نکالتی

11

مانسہرہ : مریدکے میں، کامونکی میں جو ہو رہا ہے وہ نہیں ہونا چاہئیے تھا۔ حکومت سختی سے اس احتجاج کو کچلنے کے بجائے کوئی درمیانہ راستہ نکالتی تو بہتر تھا۔ یوں کرش کرنا عقلمندی نہیں ہوتی۔

دوسری طرف “کرین” پارٹی والوں کو بھی کچھ عقل کر لینی چاہئہے۔
پہلی بات کہ آپ کا احتجاج بنتا ہی نہیں۔ یہ کوئی وقت ہی نہیں تھا غ ز ہ والوں سے یک جہتی کا، ان کے لئے احتجاج کرنے کا۔ وہاں امن معاہدہ ہو گیا، مظلوم عوام مٹھائیاں بانٹ رہے، خوشیاں منا رہےہیں، جشن منا رہے ہیں اور آپ کو اس امن معاہدے پر اعتراض ہے ۔ کہتے ہیں ہم اظہار یک جہتی کے لئے جا رہے۔

اظہار یک جہتی گھر بیٹھے کر دو، کس نے روکا ہے؟ سفارت خانوں کے سامنے جا کر یک جہتی کرنا ضروری ہے کیا؟
پھر دیکھ لیا کہ حکومت سختی سے اس احتجاج کو کچل رہی ہے، اجازت نہیں دے رہی۔ لاٹھی چارج، ،گرفتاری وغیرہ سب چل رہا ہے۔ انتہائی سختی ہے تو پھر رک جاؤ ناں۔ حکومت سے ٹکرانے اور اپنے معصوم بھولے بھالے کارکنوں کو کیوں آزمائش میں ڈال رہےہیں، ان کی زندگیاں کیوں داؤ پر لگا رہے ؟

حکومت ظالم ہے، سخت ہے، احتجاج کی اجازت نہیں دے رہی تو چلو پھر رک جاؤ ، ریاست سے کیوں ٹکرانے اور اسے شکست دینے کاشوق لے کر نکلے ہو؟
اس کار لاحاصل میں کیا حاصل ہو گا؟ پارٹی بین ہو جائے گی، کارکن اور رہنما گرفتار ہو کر برسوں سڑتے رہیں گے، کچھ قیمتی جانیں چلی جائیں گی، ،قائدین پر کیا فرق پڑنا ہے۔

تحریک انصاف آپ سے سو گنا بڑی جماعت، زیادہ بڑی سپورٹ والی پارٹی ہے۔ حکومتی سختی اور جبر کے آگے وہ بھی مجبور ہوگئے۔ اب ٹکراؤ سے گریز کر رہے کہ رہے سہے کارکن نہ گرفتار کرا بیٹھیں۔
پہلے تو حکومت کو چاہئیے تھا کہ کچھ نرمی،کچھ سختی سے یہ مسئلہ حل کرتی۔ مذاکرات شروع ہوئے تو انہیں کامیاب بناتی۔ کمپنسیشن، دیت وغیرہ دینے میں کیا چلا جانا تھا حکومت کا؟

تاہم اگر حکومت انتہا پر پہنچی ہے تو سیاسی جماعت ہی حکمت اور دانش سے کام لے۔
ایک تو اب کسی بھی طرز کا مارچ نہیں بنتا کہ ایشو کی نوعیت ہی بدل گئی، اب تو چندہ کر کے امدادی سامان بھیجو کہ وہاں امدادی ٹرک جانے شروع ہو گئے۔ انہیں آپ کے مارچ اور دھرنے کی نہیں بلکہ مالی مدد کی ضرورت ہے۔ الخدمت والے کئی سو فلس طینی ڈاکٹروں کو پاکستان لے آئے ہیں،بہت سے لاہور میں مقیم ہیں۔ انہیں پڑھا رہے ہیں۔ ان کا خرچہ ہی اٹھا لو۔

دوسرا ملک حالت جنگ میں ہے، اب سڑکوں پر احتجاج بنتا ہی نہیں۔ احتجاج ختم کر کے گھر واپسی کی راہ لیں۔
تیسری اور سب سے اہم بات جسے ہر سیاسی جماعت کو سمجھ لینا چاہئیے کہ اب احتجاج والی سیاست ختم ہو گئی۔ اب چاہے پرامن احتجاج کے نام پر سہی،کسی کو سڑکیں بند کرنے اور دھرنے دینے کی اجازت نہیں ملے گی۔ کاذ خواہ کوئی بھی ہو۔ یہ نیو نارمل ہے۔ اب یہی چلے گا۔ وہ وقت اب نہیں آئے گا کہ کوئی جماعت مہینوں دھرنے دے، سڑکیں بند کرے اور اسلام آباد پر چڑھائی کرے۔

افسوس کہ کرین پارٹی کی ناسمجھ قیادت یہ سامنے کی باتیں نہیں سمجھ پا رہی۔ اور یہ بھی یاد رکھیں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسلام آباد یا لاہور میں کون سی پارٹی کی حکومت ہے۔ جو بھی ہو، طرز عمل یہی رہے گا۔ تحریک انصاف اقتدار میں ہو ،تب بھی یہی ہونا ہے۔ ماضی میں کرین پارٹی پر گولیاں تحریک انصاف حکومت ہی نے چلائیں تھیں اور پارٹی پر ہی پابندی لگا رہے تھے۔

یاد رہے کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ایسا ہونا چاہئیے۔ میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ اب ایسا ہو رہا ہے اور ایسا ہی ہوگا۔
اگر میرے کہنے سے چیزیں ٹھیک ہوتیں تو میں تو کہتا ہوں کہ پچھلے سال آٹھ فروری الیکشن کے نتائج مانے جائیں، یہ جعلی فارم سنتالیس حکومت ختم ہو اور جیتی ہوئی پارٹی کو اقتدار دیں۔ ہم تو کہتے ہیں کہ عدلیہ آزاد ہو، بااختیار عدلیہ ہو۔ ہم تو کہتے ہیں کہ میڈیا آزاد ہو، سنسر ختم ہو۔

ہمارے کہنے سے مگر وہ سب ہوا ہےجو اب احتجاج والے معاملے پر بات مانی جائے گی؟۔
انسانی جان ضائع نہیں ہونی چاہئیے ۔ کارکن ہی ہمیشہ مصیبت کا نشانہ بنتا ہے۔ اپنی پوری زندگی میں کبھی نہیں دیکھا کہ سیاسی احتجاج میں حکومتی تشدد سے کبھی سیاسی جماعت کے قائد کی جان گئی ہو۔ ہمیشہ عام ،معصوم کارکن ہی نشانہ بنتا ہے۔ قائدین کو مگر اپنے کارکنوں کو اپنے بیٹوں کی طرح ہی سمجھنا چاہئیے، ان کی حفاظت کرنی چاہئیے۔

افسوس مریدکے میں بڑا ٹکراو، بڑا نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔ کاش کسی طرح دونوں فریق عقل کریں اور انسانی جانوں کا نقصان ہونے سے بچ جائے، آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں