ایبٹ آباد کا ‘سب سے بڑا ڈان’ اور دولہا ثناء اللہ

43

ایبٹ آباد کا ‘سب سے بڑا ڈان’ اور دولہا ثناء اللہ

​ارے صاحب! آپ بھی کن چھوٹی موٹی باتوں میں الجھ گئے ہیں۔ آپ پوچھتے ہیں کہ کیا بڑے گھرانوں کے بڑوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے؟ ارے بھئی، کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔ بڑے گھرانوں میں آتش بازی نہیں ہوتی، وہاں تو “استقبالیہ فائرنگ” ہوتی ہے جسے عرفِ عام میں “ہوائی فائرنگ” کہا جاتا ہے اور جسے روکنے کے لیے پولیس نہیں جاتی بلکہ پولیس والے تو خود وی آئی پی ڈیوٹی کے نام پر وہاں قورمہ اڑانے اور دولہے کی گاڑی کو پروٹوکول دینے موجود ہوتے ہیں۔
​خبر پڑھی تو دل باغ باغ ہو گیا۔ ایبٹ آباد پولیس، بالخصوص تھانہ میرپور کے ایس ایچ او اصغر خان کو اکیس توپوں کی سلامی دینے کو جی چاہا۔ بھئی کمال کر دیا۔ شہر میں امن و امان کا مسئلہ جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ آپ خود سوچئے، یہ “ثناء اللہ ولد جان محمد سکنہ بٹگرام حال پٹھان کالونی” نامی شخص کتنا خطرناک ملزم تھا؟ اس کے ہاتھ میں کلاشنکوف تھی؟ نہیں! دستی بم تھا؟ نہیں! ارے صاحب، اس کے پاس “سامانِ آتش بازی” تھا۔ یعنی پھلجھڑیاں اور انار۔ اگر اسے بروقت گرفتار نہ کیا جاتا تو شاید ایبٹ آباد کا نقشہ ہی بدل جاتا۔
​یہ بیچارہ ثناء اللہ، پٹھان کالونی کے کسی چھوٹے سے مکان میں رہنے والا، شاید یہ بھول گیا تھا کہ خوشی منانے کا حق صرف ان کو ہے جن کے گھر کے باہر اونچی دیواریں اور گیٹ پر گارڈز کھڑے ہوں۔ اسے کیا معلوم کہ قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں چھوٹی مکھیاں تو پھنس جاتی ہیں، مگر بڑے بھڑ اسے پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔
​آپ پوچھتے ہیں کہ پچھلے ایک سال میں کیا بڑے جرائم نہیں ہوئے؟ ارے حضور! جرائم تو اتنے ہوئے ہیں کہ تھانوں کے رجسٹر شرما جائیں۔ ذرا ایبٹ آباد کی پہاڑیوں کی طرف تو دیکھیں۔
کیا آپ کو وہ ٹمبر مافیا نظر نہیں آتا جو سرِ عام جنگلات کا صفایا کر رہا ہے؟ ٹھنڈیانی اور گلیات کے جنگل گنجے ہو رہے ہیں، درخت کٹ رہے ہیں، مگر کیا کبھی کسی بڑے “ٹھیکیدار” یا اس کے سرپرست کو شادی کے مینڈپ سے گرفتار کیا گیا؟ نہیں صاحب، وہاں تو “مصلحت” آڑے آ جاتی ہے۔
​پچھلے ایک سال میں لینڈ مافیا نے جو ادھم مچایا ہے، کیا وہ کسی کو نظر نہیں آتا؟ غریبوں کی زمینوں پر قبضے، جعلی ہاؤسنگ سوسائٹیاں جو لوگوں کی عمر بھر کی جمع پونجی ہڑپ کر گئیں، پہاڑ کاٹ کر غیر قانونی پلازے کھڑے کر دیے گئے۔ کیا ان میں سے کسی “بڑے” کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا؟ یا صرف ایف آئی آر کاٹ کر فائل کسی الماری میں دبا دی گئی؟
​اور تو اور، شہر میں منشیات (آئس اور کرسٹل) کا زہر جس طرح نوجوان نسل کی رگوں میں اتارا جا رہا ہے، یہ آتش بازی سے بڑا جرم ہے یا چھوٹا؟ پچھلے ایک سال میں کتنے ہی نوجوان اس زہر سے ہلاک ہوئے، کتنے گھر اجڑے۔ کیا ان منشیات کے بڑے مگرمچھوں کو پکڑنے کے لیے اتنی ہی پھرتی دکھائی گئی جتنی اس غریب ثناء اللہ کو پکڑنے میں دکھائی گئی؟
​یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ثناء اللہ “سافٹ ٹارگٹ” ہے۔ اس کے پیچھے کوئی ایم این اے، کوئی وزیر یا کوئی بااثر “سیٹھ” نہیں ہے۔ وہ بٹگرام کا ایک محنت کش ہے جو شادی کی خوشی میں دو پٹاخے پھوڑ بیٹھا۔ اسے پکڑ کر پریس ریلیز جاری کرنا آسان ہے، اس سے “کارکردگی” کا گراف بھی اونچا ہو جاتا ہے اور افسران کی گڈ بک میں نام بھی آ جاتا ہے۔
​اگر واقعی قانون سب کے لیے برابر ہوتا، تو ایبٹ آباد کے پوش علاقوں، کے بنگلوں میں ہونے والی شادیوں میں چلنے والی گولیوں کی تڑتڑاہٹ پر بھی کبھی کوئی دولہا حوالات کی ہوا کھاتا۔ مگر وہاں قانون کی آنکھوں پر پٹی نہیں، بلکہ قانون کی آنکھیں ہی بند کر دی جاتی ہیں۔
​سو، خوش رہیے اہل ایبٹ آباد! آپ کی پولیس جاگ رہی ہے۔ اس نے خطرناک ترین دہشت گرد… معاف کیجیے گا، خطرناک ترین “دولہا” گرفتار کر لیا ہے۔ اب آپ سکون سے سو سکتے ہیں، کیونکہ بڑے مجرم تو ویسے بھی ان کی پہنچ سے بہت دور، بہت اوپر، کہیں اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں بیٹھ کر اس گرفتاری کی خبر پڑھ کر مسکرا رہے ہوں گے۔

تحریر: شھادت سفلی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں