تسبیح کے دانوں پر لگا خون اور ہماری ’باوضو‘ بے حسی

33

ایبٹ آباد: تسبیح کے دانوں پر لگا خون اور ہماری ’باوضو‘ بے حسی۔
ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جو مسجد کی ٹونٹی چوری ہونے پر تو پورا محلہ سر پر اٹھا لیتے ہیں، جمعے کے خطبے میں یا ھو دیوں کی سازشوں پر دھاڑیں مار مار کر روتے ہیں، مگر اپنے ہی گھر کے پچھواڑے میں، اپنے ہی محلے کی اونچی دیواروں کے پیچھے جب کوئی بیٹی ذبح ہوتی ہے تو ہماری پیشانی پر شکن تک نہیں آتی۔ ہم اپنی ٹوپی سیدھی کرتے ہیں، ’استغفراللہ‘ کا ورد کرتے ہیں اور اگلی رکعت باندھ لیتے ہیں۔

ایبٹ آباد والو! یہ پہلا جنازہ تو نہیں ہے۔ یاد ہے نا؟ ابھی کل کی بات ہے جب اسی شہرِ خاموشاں میں ایک کم سن گھریلو ملازمہ کی لاش ملی تھی۔ وہ ننھی جان جو غربت کے ہاتھوں امیروں کی چوکھٹ پر بیچی گئی تھی، اسے بھی بند کمروں میں نوچ کھایا گیا تھا۔ تب بھی ہم نے دو دن ”ہائے ہائے“ کی تھی اور پھر ہماری غیرت ایسے سوئی جیسے بھنگ پی کر لیٹی ہو۔ اگر اس دن اس ”ننھی ملازمہ“ کے قاتلوں کو چوراہے پر لٹکایا جاتا، تو شاید آج ڈاکٹر وردا زندہ ہوتیں۔

ڈاکٹر وردا کا قتل صرف ایک واردات نہیں، یہ ہمارے اس نام نہاد ”اخلاقی اور نمازی“ معاشرے کے منہ پر تھوکا گیا وہ سچ ہے جسے ہم رومال سے صاف کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 67 تولہ سونا، ایک ”اشرافیہ“ کی بیگم، ایک مسیحا اور درمیان میں کھڑی ہماری بے شرم پولیس۔
مجھے حیرت ہابیل و قابیل کی تاریخ پر نہیں، مجھے وحشت اس بات پر ہے کہ 4 دسمبر سے لاش ملنے تک کے وہ 96 گھنٹے اس ریاست کے لیے کتنے پرسکون تھے۔ ذرا سوچیں اس باپ کا جو تھانے کی دہلیز پر کھڑا کہہ رہا ہے کہ ”میری بیٹی فلاں گھر، فلاں بیگم کے پاس گئی ہے، سونا لینے گئی ہے۔“ اور آگے سے ہمارا روایتی تھانیدار، جس کی وردی پر ”محافظ“ لکھا ہوتا ہے، شاید نسوار کی پڑیا منہ میں دباتے ہوئے کہہ رہا ہوگا: ”بابا جی! صبر کرو، دیکھ رہے ہیں، تفتیش ہو رہی ہے۔“

یہ ”تفتیش“ کیا بلا ہے صاحب؟ کیا یہ تفتیش صرف تب جاگتی ہے جب کسی غریب ریڑھی والے کا تھیلا الٹنا ہو؟ جب ملزم کا تعلق ”بلے دی ہٹی“ یا کسی اور ”اونچی ہٹی“ سے ہو، تو پولیس کے وائرلیس سیٹ اچانک سگنل کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ ان 96 گھنٹوں میں تفتیش نہیں ہو رہی تھی، بلکہ شاید ”سودے بازی“ ہو رہی تھی۔ ٹائم دیا جا رہا تھا کہ لاش ٹھکانے لگاؤ، ثبوت مٹاؤ، تاکہ ہمارے ”معزز کلائنٹس“ کو تکلیف نہ ہو۔

اور یہ جو ہمارے آس پاس پانچ وقت کے نمازی، حاجی اور پرہیزگار لوگ بستے ہیں، یہ کہاں تھے؟ یہ وہی لوگ ہیں جو اگر کسی لڑکی کا دوپٹہ سرک جائے تو قیامت برپا کر دیتے ہیں، لیکن جب شہر کے بیچوں بیچ ایک لڑکی غائب ہو جائے اور پھر اس کی لاش ملے، تو ان کی اخلاقیات کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ ہم نے مسجدیں تو آباد کر لیں، مگر دل ویران کر دیے۔ ہمارے ماتھے پر سجدوں کے نشان تو ہیں، مگر ہاتھوں پر خون کے دھبے ہیں۔

ملزمان بااثر تھے؟ تو کیا ہوا؟ اللہ سے بھی زیادہ بااثر تھے؟ 4 دسمبر کو اگر پولیس اسی گھر پر چھاپہ مار لیتی جس کا پتہ ایف آئی آر میں چیخ چیخ کر بتایا گیا تھا، تو شاید ڈاکٹر وردا آج مریضوں کا علاج کر رہی ہوتیں، نہ کہ خود پوسٹ مارٹم کی میز پر بے جان پڑی ہوتیں۔ لیکن صاحب! چھاپہ مارنے کے لیے ”اجازت“ چاہیے ہوتی ہے، اور اجازت دینے والے اکثر انہی قاتلوں کے ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر مرغ مسلم اڑا رہے ہوتے ہیں۔

ہم نے ایک ڈاکٹر کو نہیں مارا۔ ہم نے اس یقین کو قتل کیا ہے کہ ”دوست محافظ ہوتا ہے۔“ ہم نے اس امید کا گلا گھونٹا ہے کہ ”ریاست ماں جیسی ہوتی ہے۔“ ایبٹ آباد کی پولیس نے ثابت کر دیا کہ ریاست ماں نہیں، بلکہ وہ دلال ہے جو طاقتور کا جرم چھپانے کے لیے کمزور کی لاش پر مٹی ڈال دیتی ہے۔

ڈاکٹر وردا کی لاش ”لڑی بنوٹہ“ سے ملی، لیکن درحقیقت یہ لاش ہمارے نظامِ انصاف کے منہ پر پڑی ہے۔ یہ 67 تولہ سونا دراصل ہماری اجتماعی غیرت کی قیمت ہے جو ہم نے لگا دی ہے۔

اب وزیر آئیں گے، مشیر آئیں گے، افسوس کے ٹویٹ ہوں گے۔ یہ سب ”بعد از مرگ“ کا ڈرامہ ہے۔ وہ جو چار دن پولیس سو رہی تھی (یا سونے کا ناٹک کر رہی تھی)، کیا اس غفلت پر کسی ڈی پی او کی وردی اترے گی؟ ہرگز نہیں۔ کچھ دن بعد کوئی نئی ویڈیو لیک ہو جائے گی، کوئی نیا سیاسی تماشا لگے گا، اور ڈاکٹر وردا کی فائل، اسی چھوٹی ملازمہ کی فائل کی طرح، کسی الماری میں دیمک کی خوراک بن جائے گی۔

صاحبو! نصیحت صرف اتنی ہے: اگر آپ کے پاس سونا ہے، تو اسے زمین میں گاڑ دیں مگر کسی ”دوست“ کو امانت نہ دیں۔ اور اگر آپ کا کوئی پیارا لاپتہ ہو جائے، تو تھانے جانے سے پہلے ٹائر اور ماچس خرید لیں، کیونکہ اس بے حس معاشرے میں ایف آئی آر قلم کی سیاہی سے نہیں، بلکہ سڑک پر جلتے ہوئے ٹائروں کے کالے دھوئیں سے لکھی جاتی ہے۔

تحریر: شھادت سفلی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں