پنجاب میں سیلاب کی موجودہ صورتحال: متاثرہ علاقے اور نقصانات

8

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں مون سون کی شدید بارشوں اور بھارت کی جانب سے ڈیموں سے پانی چھوڑنے کی وجہ سے سیلاب کی صورتحال انتہائی سنگین ہو گئی ہے۔ قومی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور پنجاب پرووینشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی رپورٹس کے مطابق، دریائے راوی، ستلج، چناب اور سندھ میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو چکی ہے، جس سے ہزاروں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ فوج اور پولیس کو امدادی کاموں کے لیے طلب کر لیا گیا ہے، جبکہ ہزاروں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔

سیلاب نے پنجاب کے متعدد اضلاع کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جن میں سیالکوٹ، قصور، بہاولنگر، اوکاڑہ، پاکپتن، بہاولپور، وہاڑی، لیہ، ڈیرہ غازی خان، کوٹ ادو، راجن پور، مظفر گڑھ اور پسرور شہر شامل ہیں۔ لاہور بھی خطرے کی زد میں ہے، جہاں دریائے راوی میں پانی کی سطح بلند ہونے سے شاہدرہ اور ہیڈ بلوکی جیسے علاقوں کو خطرہ لاحق ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، انڈس اور چناب دریاؤں کے آس پاس کے علاقے سب سے زیادہ متاثر ہیں، جہاں کئی دیہات پانی میں ڈوب چکے ہیں اور بجلی کی طویل بندش کا سامنا ہے۔ بھارت کی جانب سے ڈیموں سے پانی چھوڑنے سے ستلج اور راوی میں سیلاب کی شدت میں اضافہ ہوا ہے، جس سے سرحدی علاقوں میں ہنگامی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔

پنجاب میں سیلاب سے اب تک کم از کم 165 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ ملک بھر میں مون سون کی بارشوں اور سیلاب سے ہلاکتوں کی تعداد 802 تک پہنچ چکی ہے، جن میں سے نصف اگست میں ہوئیں۔ متاثرین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اور پنجاب میں 150,000 سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں، جن میں سے تقریباً 35,000 نے رضاکارانہ طور پر علاقہ چھوڑا ہے۔ صرف بہاولنگر سے 89,868، قصور سے 14,140، اوکاڑہ سے 2,063 اور دیگر اضلاع سے ہزاروں افراد کو منتقل کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، 2,356 سے زائد خاندان (تقریباً 15,000-20,000 افراد) بے گھر ہوئے ہیں، جو رشتہ داروں یا کھلے آسمان تلے پناہ لیے ہوئے ہیں۔
انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا ہے، جہاں لیہ میں 123 گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں، اور کئی علاقوں میں پانی کھڑا ہونے سے بجلی کی سپلائی معطل ہے۔ زراعت، جو پنجاب کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، کو بھاری نقصان پہنچا ہے۔ ہزاروں ایکڑ کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں، جن میں نقد آور فصلیں شامل ہیں۔ مالی نقصانات کی کوئی حتمی تخمینہ نہیں ملا، لیکن 2022 کے سیلاب کی طرح، جو 40 ارب ڈالر کا نقصان لائے تھے، اس سال بھی اربوں روپے کا نقصان متوقع ہے۔ مویشیوں کی ہلاکتیں اور فصلوں کی تباہی سے کسانوں کو شدید مالی دھچکا لگا ہے، جو پہلے ہی قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
حکومت نے ریلیف کیمپ قائم کیے ہیں جہاں خوراک، ادویات اور دیگر ضروریات فراہم کی جا رہی ہیں، لیکن متاثرین کا کہنا ہے کہ امداد ناکافی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اور ناقص منصوبہ بندی کو اس بحران کی بنیادی وجوہات قرار دیا جا رہا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں