مانسہرہ اور اس کے دیہات کی وجہ تسمیہ
(محمد امجد چودھری)
مانسہرہ (پرانا پکھلی سرکار) کی برصغیر میں تاریخی حیثیت بہت پرانی ہے۔ ماضی میں مختلف راجاؤں اور مہاراجاؤں کے دور حکومت میں اس کی جغرافیائی حدود بدلتی رہی ہیں۔ سکندر مقدونی نے شمالی ہندوستان کو فتح کرنے کے بعد اس کے بڑے حصہ پر اپنی حکومت قائم کی ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق ٧٢٣ قبل مسیح میں سکندر مقدونی نے یہ علاقہ پونچھ سلطنت کے راجہ ابی سارس کے حوالہ کر دیا تھا۔
بعض تاریخ دانوں اور عام لوگوں کا کہنا ہے کہ مانسہرہ کا نام سکھ گورنر مان سنگھ کے نام پر پڑا ہے جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ مانسہرہ یہاں کی تاریخ میں بہت پرانا نام ہے اور وہ اس کی وجہ تسمیہ بتانے سے قاصر ہیں۔
مانسہرہ کو برطانوی راج کے زمانہ میں تحصیل کا درجہ دیا گیا۔ اس سے قبل یہ علاقہ پکھلی سرکار کہلاتا تھا ۔
ا شوکا کے مشہور فرمان مانسہرہ میں بریڑی کی پہاڑی کے نواح میں تین چٹانوں پر نقش ہیں جو اس علاقہ پر اس کی حکمرانی کے ثبوت ہیں۔
ہندو اساطیری روایات کے مطابق دوسری صدی عیسوی میں سیالکوٹ کے راجہ سالباہن کے بیٹے راجہ رسالو نے ان علاقوں کو اپنی عملداری میں شامل کیا۔ مقامی لوگ اس کو اپنا ہیرو تصور کرتے تھے ۔
حتیٰ کہ اب بھی والدین سردیوں کی طویل راتوں میں اپنے بچوں کو راجہ رسالو اور اس کی بیوی رانی کوکلاں کی کہانیاں سناتے ہیں ۔
ترک شاہی اور ہندوشاہی ریاستوں نے بھی پکھلی پر یکے بعد دیگرے حکومت کی ہے۔ ہندو شاہی راجائوں میں راجہ جے پال کھٹانہ سب سے نمایاں تھا۔
گیارہویں صدی عیسوی میںہندو شاہی سلطنت کے زوال کے بعد ایک بار پھر کشمیریوں نے اس علاقہ کو ’’کلشان‘‘ کی سربراہی میں اپنے ساتھ شامل کر لیا۔
ابوالبرکات مولانا عبدالمالک خان چوہان کالس یا کلسان‘ کلشان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
راجہ کالس کی اولاد سے دوشخص کٹاری خان و بلند خان معروف ہیں،کٹاری خان تو پونچھ کے سرسبز پہاڑوں میں چلا گیا جس کی اولاد اب بھی وہاں موجود ہے اور بلند خان کی اولادجہلم، گجرات وغیرہ میں ہے، موضع بنی اس خاندان کے کسی وارث اعلیٰ بنی خان کا آبادکردہ ہے۔ میرٹھ وغیرہ اضلاع کے کلسان اور پنجاب کے کالس ایک ہی ہیں۔(شاہان گوجر)
1428ء میں شہاب الدین نے کابل سے آ کر یہاں پر حکومت قائم کی۔ اس نے اس علاقہ کا نام پکھلی سرکار رکھا ہے اور گلی باغ گائوں کے مقام کو اپنا دارالحکومت بنایا ۔
تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ 1830ء سے قبل پورے ہزارہ میں گوجر قوم اکثریتی آبادی رکھتی تھی۔
مگر سترہویں صدی کے ابتدائ میں سندھ پار سے حملہ آور بعد میں اس علاقہ پر قابض ہو بیٹھے۔ انہوں نے اصل قدیم مالکوں سے ان کی زمینیں چھین کر سکھوں اور گوروں کی وفاداری کے صلے میں یہ جاگیریں نمک حلالی کے طور پر حاصل کیں۔
سکھوں نے 1818ء میں مقامی لوگوں کی شدید مزاحمت کے بعد مانسہرہ میں اپنی حکومت قائم کی۔ سکھوں کی پنجاب سے مانسہرہ آمد کے فوراً بعد حضرت سید احمد شہید( رحمۃ اللہ علیہ)مجاہدین کے ہمراہ مانسہرہ کی سرزمین پر تشریف لائے۔
آخرکار ١٨٣١ میں سکھوں اور مجاہدین کے درمیان بالاکوٹ کے مقام پرا یک خونریز معرکہ ہوا سکھوں کو برتری حاصل ہوئی۔ حضرت سید احمد شہید( رحمۃ اللہ علیہ) اپنے بہت سے جانثاروں کے ساتھ شہادت کے رتبہ پر فائز ہوئے۔ اس طرح مانسہرہ پر سکھوں کا تسلط مزید مضبوط ہو گیا۔
مانسہرہ کا نام بعض لوگ مہان سنگھ سے منسوب کرتے ہیں۔ میری نظر میں یہ درست نہیں ۔ پرانی کتابوں میں اور قدیم نقشوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نام بہت پرانا ہے اگر مہان سنگھ نے یہاں سرائے بنائی ہوتی تو اس کے آثار ضرور ملتے۔ مان سنگھ رنجیت سنگھ کے دور میں گزرا ہے۔ جبکہ مانسہرہ نام اس سے پہلے موجود تھا ۔اس سے ملتا جلتا مانسر نام کا گاوں اور کیمپ جرنیلی سڑک پشاور سے لاہور سے لاہور جاتے ہوئے اٹک کے پل سے گزر کر قریبا تین میل کے فاصلے پر سڑک سے ذرا ہٹ کر واقع ہے ۔ اس کے علاوہ دریائے سندھ منبع و ماخذ جھیل مانسر وور ہے جو دنیا کی بلند ترین سطح مرتفع تبت کے مغربی علاقے میں واقع ہے۔ یہ سطح سمندر سے پندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ جھیل ٨٨کلومیٹر کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کی گہرائی 90 میٹر ہے۔ اسے تبتیوں کے علاوہ ہندو بھی مقدس سمجھتے ہیں ۔
بعض مورخین مانسہرہ کو بھی ایک بڑی جھیل بتاتے ہیں ۔ یہ بات یقینی ہے کہ مانسہرہ لفظ مانسر ہی کی بگڑی یا سنوری شکل دکھائی دیتا ہے ۔اگر مہان سنگھ نام رکھنے کا دعویدار ہوتا تو ضرور اس کا تذکرہ بھی کرتا اور اپنی یادگار بھی چھوڑتا جس طرح ہری سنگھ نے ہری پور شہر بسایا اور قلعہ کشن گڑھ تعمیر اور جیمز ایبٹ نے ایبٹ آباد کو اپنے نام سے منسوب کیا اور اس کا ببانگ دہل تذکرہ کیا ۔
ہزارہ کے ایک فاضل مصنف نے مہان سنگھ کو ہزارہ کے سیاسی زعما میں شمار کر دیا اس کی زندگی کے احوال بڑے فخر سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
مہان سنگھ نے 1778ء میں اپنی ماں کو قتل کر دیا اوروہ سخت شرابی تھا ۔1790ء کثرت مے نوشی کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوئی۔
مزید لکھتے ہیں کہ:
مہان سنگھ کے حالات اس لیے لکھے گئے کہ اس کے نام پر مانسہرہ آباد ہے
کیونکر آباد ہوا ؟ کب آباد کیا ؟ کیا دلائل ہیں ؟
اس بارے میں کوئی علم نہیں ۔ بس سنی سنائی کو تاریخ کا حصہ بنا دیا گیا ۔ یہاں اس کی وضاحت کرتا چلوں کہ اس نام نہاد شخص کا اصل نام مہان سنگھ ہے نا کہ مان سنگھ۔ یوں اس کے نام سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اگر اس کے نام سے مانسہرہ کا نام رکھا جاتا تو مہانسہرہ ہوتا۔میں نے مانسہرہ کی وجہ تسمیہ تلاش کرنے کے لیے تاریخ ہزارہ کے ہزاروں اوراق کھنگالے لیکن مجھے کہیں بھی کوئ مستند روایت نہیں مل سکی ۔ ماسوائے ایک مقام کے جہاں میجر بیچر ڈپٹی کمنشنر ہزارہ نے تحریر کیا ہے کہ:
چھٹی اگست 1857ء اکتالیس سپاہی رجمنٹ٥٥سے قلعہ مانسرائے میں بعد از تحقیقات توپ سے اڑا دیے گئے ۔
اسی مانسرائے کے تذکرے کو لے کر مصنفین نے مانسہرہ کا سہرا مہان سنگھ کے سر پر جما دیا ۔ جو کہ میری نظر میں ناقابلِ قبول ہے۔ کیوں کہ یہاں مانسرائے کا تذکرہ ہوا ہے نا کہ مانسہرہ کا۔یہاں پر یہ بھی ذکر کر دیا جائے کہ 1983ء میں ڈسٹرکٹ کونسل مانسہرہ نے اس نام کو مشرف بہ اسلام کرنے کی کوشش کی ۔ ڈسٹرکٹ کونسل نے ایک قرارداد پاس کر کے حکومت کو ارسال کی کہ مانسہرہ شہر کا نام ہندو دور کی یادگار ہے۔ اس کا نام تبدیل کر کے حضرت سید احمد شہید( رحمۃ اللہ علیہ) کی اسلامی خدمات کے اعتراف میں احمد آباد یا احمد نگر رکھا جائے ۔
ڈسٹرکٹ کونسل کے اس اقدام کی تائید میں چند علماء نے فتوے بھی دیے لیکن کسی نے تاریخی حوالے سے موقف پیش نہیں کیا ۔ مانسہرہ کے علمی وادبی حلقے اس بات سے بخوبی اگاہ تھے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ مانسہرہ کا نام مہان سنگھ کے نام پر رکھا گیا ہے ۔ نہ ہی مان سنگھ مانسہرہ کا کوئی حاکم گزرا ہے ۔
اس پر مختلف اخبارات میں آرٹیکل شائع ہوئے۔ جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ کسی شہر کا نام تبدیل کرنے سے حقیقت تو نہیں بدل سکتی نام بدلنے سے تاریخ پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا ۔ جب مہان سنگھ کے نام پر مانسہرہ کا نام نہیں رکھا گیا تو پھر کونسل کیوں اسے تبدیل کرنے پر بضد ہے اگر حضرت سید احمد شہید( رحمۃ اللہ علیہ)کے نام کو دوام بخشنا ہے تو ان کے نام کی یونیورسٹی یا ہسپتال بنا دی جائے ۔ اس کے بعد یہ معاملہ سرد خانے کی نذر ہوا اور قرار داد پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ۔
ہم یہاں مانسہرہ کے مختلف مقامات کے ناموں کی جانچ پڑتال کرتے ہیں لوک ماہرین ان ناموں سے تاریخ کے اہم نتائج اخذ کر سکتے ہیں ۔ان ناموں سے بہت سی آبادیوں کے اچھے برے رجحانات ، علمی استعداد ، زبان و بیان ، نسلی تفاخر، قدیم تہذیبوں کے اثرات کا پتہ چلتا ہے ۔ کسی علاقے کے ابتدائ باشندے علم بشریات کا موضوع ہوتے ہیں۔ مختلف مقامات کے ناموں کے تواتر سے بسا اوقات صدیوں پرانی حقیقتوں کا سراغ ملتا ہے۔
اگرچہ تاریخ لکھنے کا یہ انداز نرالا ہے لیکن اس میں دلچسپی کا عنصر موجود ہے ۔ اس مروجہ طریقے سے استفادہ کرتے ہوئے آئیے دیکھیے مانسہرہ میں کم ازکم آدھ درجن گاوں چٹا بٹا کے نام سے موسوم ہیں۔ اس کا سبب یہاں سفید پتھر کی قربت ہے ۔ یہاں چٹی گٹی ہے ۔ چٹا بٹہ اور چٹی ڈھیری بھی۔ سلابٹ اور بٹراسی بھی پتھر سے اپنی نسبت کو ظاہر کرتے ہیں ۔
اسی طرح کنڈ بھی عام نام ہے صرف شنکیاری کی ڈھیری پر تین کنڈ ، ترلا کنڈ ، اتلا کنڈ ہیں۔اس کے علاوہ بھیر کنڈ بھی اہم مقام ہے ۔
مانسہرہ میں فتح گڑھ ، منصور ،شیرگڑھ ، شنکیاری ،بھیرکنڈ ، گاندھیاں ، گلی باغ اور اروب میں قلعوں کی نشان دہی ہوتی ہے۔ بٹنگی بھی تین مقامات کا نام ہے ۔ اوگی مانسر اور جرید میں ایک فلسطینی گونج سنائی دیتی ہے۔
اس کے علاوہ ہندوں کے بچے کھچے نام چھتر، لچھی منگ، بالی منگ،نیلی شنگ، راج ڈھیری صاف طور پر سنسکرت سے ماخوذ ہیں ۔
مانگل ، اوگی ، اگرور ،اوگرہ ، ٹکری ، نندھیاڑبھی سنسکرت زبان کے لفظ ہیں ۔
منگ ترکی میں پڑاو یا چھاونی کو کہتے ہیں ۔
پکھل یا پکھال کے معنی مشکیزہ کے ہیں ۔
ڈاکٹر اکبر۔ ایس احمد کا خیال ہے کہ:
پکھلی کا نام سلطان پکھل کے نام پر رکھا گیا ہے۔ (مانسہرہ،،لوگ، ثقافت، سیاحت ،مترجم : بشیر محمود اختر)
راجہ محمد ارشاد خان پگلی،پخلی ( پکھلی) کی وجہ تسمیہ بارے رقمطرازہیں کہ:
ہندی زبان میں پکھال اور پکھلی پانی کے اس مشکیزے کو کہتے ہیں جو کھال کا بنا ہوا ہوتا ہے اور جسے بیل یا گدھے پر لاد کر لے جایا جاتا ہے۔ عہدِ قدیم میں میدانِ پکھلی خاص، میدان رش اور میدانِ ہزارہ میں پانی کی بہتات تھی۔ ولایتِ پکھلی کے پہاڑوں میں بھی پانی کے چشمے بکثرت پائے جاتے تھے… غالباً اسی وجہ سے اس ولایت کا نام پکھلی مشہور ہوا تھا۔ (تاریخِ ہزارہ … ترکوں کا عہد)
مولوی سمیع اللہ جان کے مطابق:
پکھل کا نام سواتی قبیلہ نے اپنے بادشاہ پکھال کے نام پر رکھا۔( تحقیق الافغان،٥٢)
یہاں مولوی صاحب نے تاریخی غلطی کی ہے۔سواتی قبیلہ کے بادشاہ کا نام پکھال نہیں بلکہ فکہل تھااور پھر لفظ ’’پکھال‘‘ہندی ہے نہ کہ عربی۔
ہندی میں پکھال اور پکھلی پانی کے مشکیزہ کو کہتے ہیں۔جو کھال سے بنا ہوتا ہے۔ولایت پکھل میں پانی کی کثرت تھی غالباً اسی وجہ سے ولایت پکھلی کا نام مشہور ہوا۔
پکھلی کانام آئین اکبری،تزک بابری اور تزک جہانگیری میں ملتا ہے جبکہ سلطان فکہل کا زمانہ بہت بعد کا ہے۔
راجہ محمد ارشاد خان کے مطابق:
پکھلی کو امیرتیمور نے 1399ء میں آزاد ترک ریاست کے طور پر قائم کیا تھا۔ پکھلی کو سرکار کا درجہ اکبر کے دور میں ملا۔پکھلی امیرتیمور کے حملے سے قبل اس نام سے مشہور تھی۔
اس کی تصدیق پیر معظم شاہ کی اس تحریر سے بھی ہوتی ہے جس میں سلطان اویس کو سلطان فہکل سلطان جہانگیر کا بیٹا لکھا ہے۔ (تاریخ حافظ رحمت خانی، ص ١٣۔٢٣)
الحاج جہان زیب خان سواتی کے مطابق:
سلطان فکہل اور سلطان بہرام سلطان کہجامن بن سلطان ہندا جہاں بھی جس علاقے کو فتح کرتے تو مفتوح علاقوں کو اپنے نام سے منسوب کرتے۔پکھلی کا پہلا نام مہا بھارت میں اوراگا تھاجس کے معنی جھیل کے ہیں۔کسی زمانے میں یہاں بڑی جھیل ہوتی تھی ۔ بعد میں اس کا نام اورش ہو گیا ۔
یہاں بھی موصوف کو تسامح ہوا ہے پکھلی کا پرانا نام ہندوستان کی قدیم تاریخ مہا بھارت میں اورگا نہیں بلکہ یہ ہزارہ کا پرانا نام تھا اور اورش ایبٹ آباد کا پرانا نام تھا نہ کہ پکھلی کا۔سکندر اعظم نہیں سکندر مقدونی ہے۔
خان عزیز الرحمن خان لکھتے ہیں کہ:
پکھلی کا علاقہ شروع سے ہی اسی نام( پگلی،پخلی ، پکھلی)سے تھا اور یہ کہنا پکھال کے نام سے پکھلی کا نام پڑا جو سواتی تھا تاریخی بات نہیں اگر پکھال سے یہ نام درست مان لیا جائے تو پکھال ہندوانہ نام ہے جو سواتی نہ تھا ۔ (تحقیق عزیز افغاناں،ص٠٣٢)
جیسا کہ ہر کسی نے اپنے اپنے انداز سے پکھلی کی وجہ تسمیہ لکھی ہے لیکن اس تمام بحث ونظر سے ایک بات تو ثابت ہوگئی کہ پکھلی کانام سلطان فہکل کے نام کی وجہ سے پکھلی نہیں پڑا۔بلکہ سلطان فہکل سے بہت پہلے سے یہ نام موجود تھا جوکہ زمینی ساخت کی طرف دلالت کرتا ہے۔پکھلی کی مٹی چکنی اور خشک ہے۔بارشوں کے موسم میں پکھلی کی مٹی پگھل جاتی ہے پھسلن زیادہ ہوتی ہے جس سے چلنا محال ہوتا ہے اور جب موسم خشک ہوتا ہے تویہ مٹی اوپر کوابھر سی جاتی ہے۔خاص کر جاڑے کے موسم میں جب شور زمین کولگتا ہے ۔توثابت یہ ہوا کہ اپنی زمینی ساخت کی وجہ سے پگلی اور پخلی کے نام سے مشہور ہوئی ۔یہی نام بعد میں کثرت استعمال سے پگلی،پخلی سے پکھلی مشہور ہوا۔(ہزارہ کے دیہات تاریخ کے آئینے میں،ص)
ترکوں نے پکھلی نام متعارف کیا ۔آئین اکبری میں پکھلی کو ایک الگ سلطنت کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ اس وقت ہزارہ نام ہری پور کے گردونوح تک موحدود تھا ۔
آئین اکبری میں میدانِ ہزارہ کا نام ہزارہ گوجراں تحریر کیا گیا ہے ۔ مانگلی اور گلی باغ جیسے اہم شہر ترکوں کے عہد میں آباد ہوئے ۔
گیدڑ پور کے قریب تاتار بالا بھی ترکوں کی نشانی ہے۔ مانگلی یا مانگل سنسکرت کا لفظ ہے جس کے معنی پرفضا اور خوش منظر(محلِ وقوع کے لحاظ سے موزوں نام)کہا جاتا ہے ۔
راجہ رسالو کے لڑکے منگل کے نام پر مانگلی نام رکھا گیا ۔ منگل رانی کوکلاں کے بطن سے تھا۔تاریخی تحقیق کے لحاظ سے راجہ رسالو کا زمانہ دوسری صدی عیسوی کا ہے ۔
لہذا یہ شہر دوسری صدی کا آباد کردہ ہے ہیونگ سانگ جب ساتوی صدی میں ہندوستان آیا اس نے اس مقام کو بھی دیکھا تھا۔
وہ لکھتا ہے کہ:
یہ شہر اس علاقہ (کشمیروہزارہ )کا دارالخلافہ تھا ۔ اس شہر کے سات دروازے تھے یہ شہر جلاہ پورہ کے نزدیک آباد تھا ۔
1821ء میں کشمیر سے واپسی پر ہری سنگھ نے مانگلی کا شہر مکمل جلا دیا تھا ۔ ( اس کا مفصل تذکرہ ایک علیحدہ مضمون کا متقاضی ہے ) اب بیدادی کو دیکھ لیجیے ایسی جگہ جہاں عدل و انصاف نہ ہو ۔ یقینا یہاں بے انصافی ہو ئی ہے ۔ تب جاکر بیداد نگری نام رکھا گیا ۔ پھر بیدادی کے نام سے موسوم ہوا ۔ بیدادی دراصل جٹا شاہ نامی ہندو نے اول اول آباد کیا تھا ۔ یہ ہندو راجہ بڑا ظالم تھا ۔ اس لیے اس کے مظالم کی وجہ سے لوگوں نے اس کے دارالحکومت کو بیداد نگری مشہور کیا ۔
ہندو دور میں بیدادی گنجان آباد شہر تھا ۔مانگلی ، گلی باغ ،چھانجل ، بیدادی ہزارہ کی قدیم ترین آبادیاں ہیں۔
عطرشیشہ ملکہ نورجہاں سری نگر جاتے ہوئے جہاں اپنے سنگھار کا سامان بھول گئی ۔اس سامان میں اہم اشیا عطر اور شیشہ تھیں ۔ یوں یہ مقام عطر شیشہ کہلایا ۔
گاندھیاں سکھوں کی موجودگی اور تسلط کو ظاہر کرتا ہے ۔یہاں سکھوں کی چھاونی ہوتی تھی ۔
شنکیاری پشتو میں سبز کیاری کو کہتے ہیں۔
اس کی ایک اور بھی وجہ تسمیہ بیان کی جاتی ہے کہ کسی زمانے میں یہاں چنار کے درختوں کی بہتات تھی ۔ جس کے سبب اس کا نام چنکیاری ہو گیا بعد ازاں شنکیاری میں بدل گیا۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ شنکیاری میں راجہ رسالو سکونت پزیر رہا ۔
چھانچل نام کا گاوں ترکوں کے قلعے کی وجہ سے مشہور تھا اگر دیکھا جائے تو بفہ تاریخی لحاظ سے قدیم تر ہے ۔ بفہ گلی باغ اور ہاتھی میرا مغلیہ دور کے اہم مقامات تھے ۔
ہندکو میں بفہ خشکی کو کہا جاتا ہے ۔بفہ کے گردونواح میں سجی کوٹ اور بفہ بیلہ کے دیہات آباد ہیں ۔ سیری ، سوسن گلی ،ڈبی مار، ہواگر محل ،رابواڑ جو علاقہ اگرور کی حد میں ہیں خان آف اگرور کے مظالم کی گواہی دیتے ہیں اگرور قدیم ترین گاوں ہے ۔
ٹولمی کے مطابق:
اگرور ارشا سلطنت کا ایتھا گورس تھا ۔
ہیون سانگ نے اسے اتیو گراپورا تحریر کیا ہے ۔ جو اس وقت کے بادشاہ جیا سہما کا مقبوضہ علاقہ تھا ۔ ہاتھی میرا سے مراد ہاتھیوں کا ٹھکانہ مغلیہ دور میں شہنشاہوں کی آمد پر ہاتھی یہاں باندھے جاتے تھے ۔
خاکی میں ایک فقیر بنام خاکی آیا اس نے بلند جگہ پر گاوں کی بنیاد رکھی اسی کے نام پر خاکی مشہور ہوا۔ (درست نام کو رائج کیا اگر دیکھا جائے تو ہر انسان اور ہر مقام خاکی ہی تو ہے )
بریڑی کا پہاڑی مقام بہت پراسرار عجیب و غریب اور دلچسپ داستان بیان کرتا ہے۔یہاں کی منقش اینٹھی ہوئیچٹانیں اپنے اوپر لکھی ہوئی تحریروں کے ذریعے اپنی داستانیں خود بیان کرتی ہیں۔
اشوکا نے یہاں پتھروں پر اپنے احکامات نقش کرائے تھے۔ جس کا تفصیلی تذکرہ یہاں ممکن نہیں۔
بریڑی سے پرے کوہ بھینگڑہ کی اس رخ پر 8500فٹ بلند ترین چوٹی ہے ۔ مانسہرہ میں منگ کے علاوہ کوٹ بھی کافی ہیں جن میں ہل کوٹ ، چنار کوٹ ، شاہ کوٹ ، کوٹ ہندوال ، غازی کوٹ، لبڑکوٹ ، نوکوٹ وغیرہ شامل ہیں ۔ بانڈے اور بانڈیاں بھی کثیر تعداد میں بسائی گئی ہیں جو اپنے آبادکاروں کے نام سے موسوم ہیں۔
بعض نام درختوں اور پودوں اور پھلوں کی مختلف اقسام سے موسوم ہیں :
بٹنگی، دھمن نلہ، بھورج ، پھلائ ،تمبر کھولہ،شاہتوت، تمری، ٹاہلی، چہڑھ ،سفیدہ ، امب ،سنجلی، سوسل ،سلونہ ، ہاڑی میرا وغیرہ ۔
نیل بن نام میں نیلے جنگل کی نشان دہی ہے ۔
مانسہرہ میں آباد اقوام نے کئی نام اپنی سرکردہ شخصیت یا گوتوں کے نام پر رکھے ہیں ۔تناول تنولی قوم نے اپنے نام سے آباد کیا ۔
گڑھی حبیب اللہ کانام حبیب اللہ خان کے نام پر رکھا گیا اس سے قبل سواتی قوم کا ایک فرد محمد حسین خان یہاں قیام کرتا تھا اس نے اس جگہ کا نام اپنے اجداد کے نام پر گھڑھی سعادت خان رکھا تھا ۔(گڑھی حبیب اللہ میں قدیم دور میں بدنام زمانہ عائلی قوانین رائج تھے جن کو کسی اور موقع پر قلم ذد کیا جائے گا۔)
بانڈہ سیداں کانام سیدوں نے اپنے نام پر رکھا ۔ ترنگڑی صابرشاہ ،میرا مقرب شاہ ، ماڑی صفدر شاہ بھی اسی قوم کے افراد سے منسوب ہیں ۔ شیخ آباد ،شیخ وال بانڈی شیخاں شیخ قبیلے کی یادگاریں ہیں۔ بھیرکنڈ صوبہ خان تنولی نے آباد کیا ۔ جبڑی کلیش اور بوئی بمبہ قبیلے نے آباد کیے ۔
گوجروں کے آباد کردہ دیہات ان کی گوتوں یا گوجر نام سے منسوب ہیں جن میں گوجرہ ، ٹھاکرہ ، گوجر گڑھی ،باگڑی ، ٹھاکر میرا ، گوجراں دی گلی ، چوٹا پسوال ،چوہانہ ، بالاکوٹ ،چوٹا چیچی ، گاوں چیچیاں ، بالی منگ ، تڑ منگ ،سم الہی منگ ، منڈھار ، ہل کوٹ ، بھرکڑ منگ ، میانہ مکڑا ، باگڑیاں ،دوتار میانہ ، کالس ، گوجر پٹہ ، گوجر بانڈی ،دھڑیال ،بھامیڑہ ، ڈوگہ ، چوٹا آوانہ، چندروال وغیرہ شامل ہیں۔
گوجر چونکہ ہزارہ کی قدیم ترین اقوام میں ہیں ۔انہوں نے اپنے مساکن کو اپنی گوتوں کے نام سے رائج کیا ۔
مانسہرہ میں جن گاوں میں جس قسم کے جنگلی جانوروں کی کثرت یا قربت تھی ۔ وہ اسی کے نام سے مشہور ہو گئے ۔ خاکی کے قریب شیرپور اور اوگی سے چار میل کے فاصلے پر شیرگڑھ کا نام شیر کی موجودگی کو ظاہر کرتا ہے۔
اسی طرح تنگلائی کے جنگل کے دامن میں لوگوں نے گیدڑ کی قربت سے ذیادہ محسوس کیا گیا اور اپنے گاوں کا نام گیدڑپور رکھ دیا۔ گیدڑ پور کے قریب چڑیا نام کس گاوں بھی موجود ہے (سکھ عہد میں گیدڑ پور جاگیر کا رقبہ ٠٨ہزارکنال تھا اور جاگیر میں کوئی ٧٧گاوں شامل تھے جن میں شیخ نبیر ، تریڈو ، جابہ ، گیدڑ پورخاص ، چڑیا ،لڈا درہ لالان، بہاگ ڈنہ ، نگریانی ، کہکہو ، ملو، بن کوئ ، چھڑ ، ببرال ، داک ٹونہ، ہوا گلی ، دوتار بالا ، دوتار پایاں ، دوتار میانہ ، چوکی ، چھپر ، بہوچر، گلی نصر وغیرہ شامل تھے۔)مچھی پولگاوں مچھلیوں کی کثرت کی نشان دہی کرتا ہے ۔ سانڈے سر نہ جانے سانڈ کے سر سے کیوں منسوب ہوا ۔مانسہرہ کے ناموں میں مجھے انگریزوں کی موجودگی کہیں نظر نہیں آئی ۔ نہ ہی کسی انگریز نے یہاں کوئ یادگار چھوڑی ہے ۔
ڈاکٹر صابر کلوروی مرحوم نے گندھارہ ہندکو کانفرس پشاور میں مانسہرہ کے دیہات کے اکثر ہندکو ناموں کی نشان دہی کی تھی ۔ یہ حقیقت ہے کہ یہاں اکثر نام ہندکو ذبان کے بھی ملتے ہیں ۔ بعض نام ممتاز سیاسی، مذہبی اور علمی شخصیات کے آبائی مساکن ہونے کی وجہ سے ذیادہ معروف ہوئے۔ یا ان کی وجہ شہرت، شہرت یافتہ شخصیات بنیں ۔ سچہ کلاں اور سچہ خورد ، گیر سچہ ، بانڈہ گیا سچ کے دیہات سچائی کی علامات ظاہر کرتے ہیں۔
غلام رسول مہر لکھتے ہیں کہ:
حضرت سید احمد شہید( رحمۃ اللہ علیہ) 1831ء میں کچھ عرصہ یہاں قیام کیا۔ لوگوں کی سچائ سے متاثر ہو کر اس مقام کو سچوں کے گاوں کا نام دیا جو بعد میں سچہ کہلایا ۔
لسان نواب بسایا تو کسی نواب نے ہو گا لیکن لس مٹی کی ایک قسم کو کہا جاتا ہے ۔ افضل آبادنام سے ہی ظاہر ہے۔ افضل نے ہی آباد کیا ہو گا۔
شخصیات کے نام پر آباد مقامات میں بانڈی دوست محمد ، بانڈی خان خیل ، بانڈی غلام حیدر خان ،ڈھیری حلیم، ڈھیری سعداللہ ، عنایت آباد ، میراامجد علی وغیرہ شامل شامل ہیں ۔ ہمشیریاں حق ہمسائیگی کو ظاہر کرتا ہے۔
اچھڑیاں بھی قدیم گاوں ہے۔ ڈاڈر چونکہ ڈراونی سی جگہ ہے اس لیے اس کا نام ڈاڈر مناسب رکھا گیا ۔ ڈھوڈیال میدان پکھلی کا اہم قصبہ ہے۔
ڈڈیال(میرپورآذاد کشمیر)ڈھڈیال (چکوال ، پنجاب)ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے معلوم ہوتے ہیں ۔ ستھان گلی آستانہ یا ڈیرہ کے معنی رکھتا ہے ، منگل ڈوگہ ،منگلور ، منگل کے دن کی اہمیت واضح کرتے ہیں۔
اکھان۔ منگل بدھ نہ جائیے پہاڑ )جبڑ نام ایک چھوٹی جھیل کے زمرے میں آتا ہے بیلہ جبڑ اور جبڑ دیولی میں کہیں تالاب نما جھیل ہو گی۔ بیلہ گاوں یا آبادی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ جبوڑی بھی جبڑ کی جمع معلوم ہوتا ہے۔
لوئر ہزارہ میں جیسے بالا اور پائیں کے ساتھ کئیدیہات منسوب ہیں بالکل اسی طرح مانسہرہ میں اتلا (اوپر والا((اور ترلا)(نیچے والا )ایک گاوں کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ۔ جیسے:
بھیرکنڈ اتلا ، بھیرکنڈ ترلا ، پلگ اتلی پلگ ترلی، ترہا اتلا، ترہا ترلا ، حفیظ بانڈی اتلی ، حفیظ بانڈی ترلی ، دھمن نلہ اتلا، دھمن نلہ ترلا ، شنئ بالا، شنئ ترلی ، کڑمنگ بالا، کڑمنگ ترلا، کنڈاترلا، کنڈ اتلا ،کوٹلی بالا ،کوٹلی ترلی ۔
یہاں ہم نے مانسہرہ کے دیہاتوں اور شہروں کے قدیم ناموں سے اس خطہ کی تاریخ اخذ کرنے کی کوشش کی ہے جس سے مورخین اور تاریخ کے شائقین استفاد ہ کر سکتے ہیں۔گوکہ ہر نام کے ساتھ ایک داستان وابسطہ ہے ۔ہر نام،گاوں، قصبہ ، شہر اور قلعہ تاریخی روایات کا امین ہے لیکن ہم نے اختصار کے ساتھ صرف اجمالی تذکرہ کرنے پر اکتفا کیا ہے۔
ماہرین ارضیات اس کو بنیاد بنا کر اپنی تحقیقی جستجو کو آگے بڑھا سکتے ہیں ۔
تلاشِ ماضی محمد امجد چوہدری